۱۔۔۔توکل کا مطلب یہ ہے کہ اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے مقدر فرمادی ہے، وہ تجھے ضرور مل کررہے گی، اگرچہ ساری مخلوق اس کو تجھ تک پہنچانے میں رکاوٹ پیدا کرے اور جو چیز اللہ تعالیٰ نے تیرے مقدر میں نہیں فرمائی، وہ ہرگز تجھے نہیں مل سکے گی، اگرچہ ساری مخلوق اس چیز کو تجھ تک پہنچانا چاہے۔
۲۔۔۔اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ تیرے سب اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں اور اس کی علامت یہ ہے کہ کسی کی تعریف سے دل خوش نہ ہو اور کسی کی مذمت سے دل تنگ نہ ہو۔
۳۔۔۔اخلاص کو ختم کرنے والی چیز ریا کاری ہے اور یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے ،جب لوگ اس کی تعظیم کرنے لگ جائیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ لوگوں کو بے اختیار سمجھ لینا چاہئے کہ وہ لوگ نہ تو تعریف کرکے فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی تکلیف پہنچا سکتے ہیں، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھ لیا جائے تو پھر ریاکاری سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ ۴۔۔۔دین کے جو احکام معلوم ہیں،اُن پر عمل کی برکت سے وہ باتیں خود بخود معلوم ہوجائیں گی جو تاحال معلوم نہیں، تو اس لئے کثرتِ سوال سے اجتناب کرنا چاہئے اور یہ حالت اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب سیر کو معمول بنالیا جائے،
جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کیا وہ نہیں چلے پھرے زمین میں، تاکہ دیکھ لیتے‘‘۔
(الروم:۹)
۲۲۔۔۔روحانی سیر:
۱۔۔۔سیر کرنے سے ہر منزل میں عجائبات کا مشاہدہ ہوتا ہے، مگر اس سیر میں اپنی روح کو کام میں لایاجائے،
جیساکہ حضرت ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
’’اگر تو روح سے کام لینے پر قدرت رکھتا ہے تو پھر میدان میں آجا، اگر یہ نہ کرسکے تو پھر صوفیاء کے اشتغال کی طرف متوجہ نہ ہو
Similar Threads:
Bookmarks