شبِ وصال سے آگے، ترے خیال سے آگے
مری حیات کا قصّہ ہے ماہ و سال سے آگے
کہیں پہ سانس ہے ساکن، کہیں پہ درد ہے پیہم
ملے ہیں زخم جو ہم کو، ہیں اندمال سے آگے
یہ آبلے یہ رسوائی، یہ چشمِ تر یہ تنہائی
یہ خستگی ہنر میرا، ہنر کمال سے آگے
رہا تلاش میں جسکی، نگر نگر پھرا تنہا
وہ ہے بیان سے باہر، تو خد و خال سے آگے
وہ لفظ کس طرح لکھوں، جو میری فکر کو پہنچے
کسی بھی حرف سے پہلے کسی مثال سے آگے
کیا ہے بارہا میں نے، سفر تلاش میں اُس کی
کسی جنوب سے پہلے کسی شمال سے آگے



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out




Reply With Quote
Bookmarks