SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: ۱۔ سورۃ الفاتحہ

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      ۱۔ سورۃ الفاتحہ

      تعارف سورۂ فاتحہ

      سورۂ فاتحہ نہ صرف قرآنِ مجید کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے ؛بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی،اس سے پہلے کوئی سورت پوری نہیں نازل ہوئی تھی؛بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں،اس سورت کو قرآنِ کریم کے شروع میں رکھنے کا منشأ بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآنِ کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہواسے سب سے پہلے اپنے خالق ومالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہیے؛چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالبِ حق کو اللہ سے مانگنی چاہیے،یعنی سیدھے راستے کی دعا،اس طرح اس سورت میں صراطِ مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ کیا ہے؟
      (توضیح القرآن)



      آیات:۷
      ۲۔سورۃالفاتحۃ مکیہ:۵
      رکوع:۱





      بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
      بِسْمِ
      اللہِ
      الرَّحْمٰنِ
      الرَّحِيْمِ
      نام سے
      اللہ
      جو بہت مہربان
      جو رحم کرنے والا
      اللہ کے نام سے جو بہت مہربان رحم کرنے والاہے



      تشریح:اسلام نے ہر کام کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی ہدایت دے کر انسان کی پوری زندگی کا رخ اللہ تعالی کی طرف ا س طرح پھیردیا ہے کہ وہ قدم قدم پر اس حلف وفاداری کی تجدید کرتا رہے کہ میرا وجود اورمیرا کوئی کام بغیر اللہ کی مشیت وارادے اوراس کی امداد کے نہیں ہوسکتا ،جس نے اس کی ہر نقل وحرکت اور تمام معاشی اور دنیوی کاموں کو بھی ایک عبادت بنادیا۔
      مسئلہ:قرآن کی تلاوت شروع کرنے کے وقت اول اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْم اور پھر بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ پڑھنا سنت ہے، اور درمیانِ تلاوت بھی سورۂ برأت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے۔
      (معارف القرآن)


      الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(۱)
      الْحَمْدُ
      لِلّٰہِ
      رَبِّ
      الْعَالَمِينَ
      تمام تعریفیں
      اللہ کے لیے
      رب
      تمام جہان
      تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے(۱)

      تشریح: اگر آپ کسی عمارت کی تعریف کریں تو در حقیقت وہ اس کے بنانے والے کی تعریف ہوتی ہے ،لہذا اس کائنات میں جس کسی چیز کی تعریف کی جائے وہ بالآخر اللہ تعالی ہی کی تعریف ہے؛کیونکہ وہ چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے،تمام جہانوں کا پروردگار کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے،انسانوں کا جہان ہو یا جانوروں کا،سب کی تخلیق اور پرورش اللہ تعالی ہی کا کام ہے اور ان جہانوں میں جو کوئی چیز قابل تعریف ہے وہ اللہ تعالی کی تخلیق اور شانِ ربوبیت کی وجہ سے ہے۔
      (توضیح القرآن)



      الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ(۲)مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ(۳)
      الرَّحْمٰنِ
      الرَّحِيم
      مَالِكِ
      يَوْمِ
      الدِّينِ
      جو بہت مہربان
      رحم کرنے والا
      مالک
      دن
      بدلہ
      جو بہت مہربان رحم کرنے والا ہے(۲)جو روزِ جزا کا مالک ہے(۳)



      تشریح: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ: عربی کے قاعدے سےرحمنکے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع(Extensive) ہو،یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور رحیم کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو،یعنی جس پر ہو مکمل طور پرہو،اللہ تعالی کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے،جس سے مؤمن کافر سب فیضیاب ہوکررِزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہوگی؛لیکن جس کسی پر (یعنی مؤمنوں پر)ہوگی،مکمل ہوگی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔
      (توضیح القرآن)


      مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ :روزِ جزا کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو اُن کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا،یوں تو روزِ جزا سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالی ہے؛لیکن یہاں خاص طور پر روزِ جزا کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالی نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنایا ہوا ہے،یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے،لیکن قیامت کے دن جب اللہ تعالی جزا وسزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہوجائیں گی،اُس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالی کے سوا کسی کی نہ ہوگی۔(توضیح القرآن)

      إِيَّاکَ نَعْبُدُ وَإِيَّاکَ نَسْتَعِينُ (۴)
      إِيَّاکَ
      نَعْبُدُ
      صرف تیری ہی
      عبادت کرتے ہیں ہم
      وَ إِيَّاکَ
      نَسْتَعِينُ
      اور صرف تجھ ہی سے
      ہم مدد چاہتے ہیں
      (اے اللہ)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں(۴)(۴)



      تشریح:یہاں سے بندوں کو اللہ تعالی سے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے اور اسی کے ساتھ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی کسی قسم کی عبادت کے لائق نہیں ،نیز ہر کام میں حقیقی مدد اللہ تعالی ہی سے مانگنی چاہیے ؛کیونکہ صحیح معنی میں کار ساز اُس کے سوا کوئی نہیں ،دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے،وہ اُسے کارساز سمجھ کر نہیں ؛بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے۔
      (توضیح القرآن)



      اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (۵)
      اِهْدِنَا
      الصِّرَاطَ
      الْمُسْتَقِيمَ
      ہمیں ہدایت دے
      راستہ
      سیدھا
      ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما(۵)



      تشریح: سیدھے راستے سے مراد دین کاو ہ راستہ ہے جس میں افراط وتفریط نہ ہو ،افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنا اور تفریط کےمعنی کوتاہی کرنا۔
      (معارف القرآن)



      صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
      صِرَاطَ
      الَّذِينَ
      أَنْعَمْتَ
      عَلَيْهِمْ
      راستہ
      اُن لوگوں کا
      تونے انعام کیا
      اُن پر
      اُن لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام کیا ہے(۶)



      تشریح: اُن لوگوں کے راستے کی جن پر تونے انعام کیا ہے، قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے،یعنی وہ لوگ جن پر اللہ تعالی کا انعام ہوا: انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین ومقبولان ِبارگاہِ الہی ہیں(النساء:۶۹)ان چار طبقوں کے حضرات جس راستہ پر چلیں وہ صراطِ مستقیم ہے۔
      (معارف القرآن)



      غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (۷)
      غَيْرِ
      الْمَغْضُوبِ
      عَلَيْهِمْ
      وَلَا
      الضَّالِّينَ
      نہ
      غضب کیا گیا
      اُن پر
      اور نہ
      جو گمراہ ہوئے
      نہ کہ اُن لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا اور نہ اُن کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں(۷)



      تشریح:مغضوب علیہم سے وہ لوگ مراد ہیں جو دین کے احکام کو جاننے پہچاننے کے باوجود شرارت یا نفسانی اغراض کی وجہ سے ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں ،یا دوسرے لفظوں میں احکام الہیہ کی تعمیل میں کوتاہی(تفریط) کرتے ہیں ،جیسے عام طور پر یہود کا حال تھا،کہ دنیا کے ذلیل مفاد کے خاطر دین کو قربان کرتے اورانبیاءؑ کی توہین کرتے تھے،اور ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناواقفیت اورجہالت کے سبب دین کے معاملے میں غلط راستے پر پڑگئے اور دین کی مقررہ حدود سے نکل کر افراط اور غلو میں مبتلا ہوگئے، جیسے عام طور پر نصاری تھے،کہ نبی کی تعظیم میں اتنے بڑھے کہ انہیں کو خدا بنالیا ،ایک طرف یہ ظلم کہ اللہ کے انبیاء کی بات نہ مانیں انہیں قتل کرنے سے گریز نہ کریں اور دوسری طرف یہ زیادتی کہ ان کو خدا بنالیں۔


      Similar Threads:

    2. #2
      ....You don't need to follow trends to be stylish..... Click image for larger version.   Name:	Family-Member-Update.gif  Views:	2  Size:	43.8 KB  ID:	4982 Admin's Avatar
      Join Date
      Apr 2014
      Location
      Dubai , Al Mamzar
      Posts
      8,008
      Threads
      254
      Thanks
      372
      Thanked 294 Times in 242 Posts
      Mentioned
      681 Post(s)
      Tagged
      6427 Thread(s)
      Rep Power
      21474854

      Re: ۱۔ سورۃ الفاتحہ

      Jazak ALLAH


    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    غلو کےمعنی

    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •