وہ زخم پھر سے ہرا ہے نشاں نہ تھا جس کا
ہوئی ہے رات وہ بارش ، گماں نہ تھا جس کا
ہوائیں خود اسے ساحل پہ لا کے چھوڑ گئیںوہ ایک ناؤ کوئی بادباں نہ تھا جس کا
اسی کے دم سے تھی رونق تمام بستی میںکہ خندہ لب تھا مگر غم عیاں نہ تھا جس کا
جلی تو یوں کہ ہوئے راکھ راکھ جسم و جاںعجیب آگ تھی کوئی دھواں نہ تھا جس کا
گلی گلی میں خموشی پہن کے پھرتا تھاکوئی تو تھا کہ کہیں ہم زباں نہ تھا جس کا٭٭٭
Similar Threads:
Bookmarks