بین۔3

کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
دکھ کے دیمک کی نظر پار اتر جاتی ہے
زندگی جیسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بسر ہوتی ہے
ناگہانی کسی بپھرے ہوئے وحشی کی طرح
روح کی دھول اڑا جاتی ہے
سکھ کی بے سود تمناؤں کی پاداش میں یکطرفہ سزا
آن گرتی ہے کسی غیب سے نادیدگی عدل کے پلڑوں پہ سفر کرتی ہوئی
سو رہے ہوتے ہیں تھک ہار کے پنچھی غم کے
ڈار کے ڈار آ جاتی ہے
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
خون میں اتری ہوئی موت سے کیا اوجھل ہے
شاخ سے لپٹے ہوئے سانپ کی مانند بہت دھیرے سے
آشیانے کی طرف بڑھتی ہے
جھر جھری بھی نہیں لینے دیتی
بین عزت ہی سہی میت کی مگر بعد کی باتوں سے کبھی
سائباں جڑتے نہیں ٹوٹے ہوئے
آسماں زندہ نہیں ہو جاتے
آسماں مرتے ہیں اور وقت بگڑ جاتا ہے
آسماں مرتے ہیں اور شہر اجڑ جاتا ہے
کون سی صبح جگائیں گے سر عہد وفا، کون سی رات سلا رکھیں گے
صبر کو کوچہ آزاد و بیابان مسافت کی تہی مٹی پر
کب تلک ‘اور بھلا کس کس سے خفا رکھیں گے
کوئی آواز لوٹے گی
کوئی محروم دلاسہ بھی نہیں پلٹے گا
کب تلک دل کو چھپا رکھیں گے
سو گ کا سوگ منا لینے سے کیا ہوتا ہے
***