جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں
دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا
اب قدم سے ہے مرے خانہ ِ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
راحت کا ہوش ہے کسے آتش بغیر یار؟
بالیں ہیں خشت ، خاک ہے بستر تمام رات
یہ خلاف ہو گیا آسماں، یہ ہوا زمانہ کی پھر گئی
کہیں گُل کھلے بھی تو بُو نہیں، کہیں حسن ہے تو وفا نہیں
آرائشِ جمال کو مشاطہ چاہیئے
بے باغبان کے رہ نہیں سکتا چمن درست
There are currently 11 users browsing this thread. (0 members and 11 guests)
Bookmarks