چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
There are currently 4 users browsing this thread. (0 members and 4 guests)
Bookmarks