اگر نہیں تھا یہاں کوئی منتظر میرا
تو پھر فلک سے اتارا گیا تھا کیوں مجھ کو
کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشید
تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو
گھنے شجر کی شاخ سے بچھڑ کر
میں خانماں خراب ہو گیا ہوں
بکھرنے لگ گئے ہیں میرے کاغذ
قدیم تر کتاب ہو گیا ہوں
میں بن نہیں رہا کسی طرح بھی
کہ نقشِ سطح آب ہو گیا ہوں
سو بن گئی ہے رات میری دشمن
کہ میں اک آفتاب ہو گیا ہوں
گنبدِ شعر میں جو گونجتی ہے
میں اسی درد کی اذان میں ہوں
میں نے تنہائیوں کو پالنا ہے
اس لیے خواب ہی کے دھیان میں ہوں
تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں
There are currently 2 users browsing this thread. (0 members and 2 guests)
Bookmarks