اس سے کیا ہوگا اگر مجھ کو بچایا جائے
اب پرندوں کی نہیں پیڑ کی سازش ہے ندیم
جس طرف اس نے راستہ موڑا
خود کو اس سمت میں نے موڑ دیا
تجھ سے کوئی گلہ نہیں اے دوست
فیصلہ اس پہ میں نے چھوڑ دیا
اب مرے ہونٹ بھی ہیں پتھر کے
جس کو چوما اسی کو توڑ دیا
کاٹھ کی روٹی، ترے عشق کی زنجیر سو ہے
جو وراثت میں ملی تھی مجھے جاگیر سو ہے
غم ترا مجھ کو بدل پایا نہیں برسوں تک
یعنی دیوار پہ لٹکی تھی جو تصویر، سو ہے
تجھ سے مل کر بھی گنوایا نہیں کچھ بھی میں نے
خواب آنکھوں میں تھی اک حسرتِ تعبیر سو ہے
آنکھوں کی جھیل، جھیل کا پانی بدل گئی
اس بار مجھ کو نقل مکانی بدل گئی
اک قافلہ کسی کو اکیلا سا کر گیا
پھر اس کے بعد ساری کہانی بدل گئی
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks