میں جہاں پر تھا وہیں پر ہوں مگر جانے کیوں
روز اک دھول سی اڑتی ہے ترے خواب کے ساتھ
شبنمی رات کی سوغات بھی اشکوں کی طرح
نوکِ مژگاں پہ سجالی ہے ترے خواب کے ساتھ
کیا خبر اب یہ سفر پاس ترے لے جائے
رات اک چڑیا سی اتری ہے ترے خواب کے ساتھ
ایسا لگتا ہے میں اب نیند میں بھی روتا ہوں
آج اک جھیل سی دیکھی ہے ترے خواب کے ساتھ
زبان دے کے عجب بے زبانی دیتا ہے
کوئی تو ہے جو مجھے رائیگانی دیتا ہے
یہ ریگزار ضروری نہیں سبھی کو ملیں
میاں یہ عشق ہے تازہ کہانی دیتا ہے
بنا تو لی ہے محبت کی سلطنت میں نے
نہ جانے کس کو خدا حکمرانی دیتا ہے
ہر ایک شخص یہی دیکھنے کو بیٹھا ہے
تمہارا ہجر کسے کیا نشانی دیتا ہے
وہ مجھ کو پھول تو تازہ ہی بھیجتا ہے ندیم
مگر کتاب ہمیشہ پرانی دیتا ہے
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks