ایک حیرت کدہ ہے نگر رات کا
آسمانوں سے آگے سفر رات کا
بام و در تک گریزاں سویروں سے ہیں
میرے گھر سے ہوا کیا گزر رات کا
صبح نو تیرے چہرے کے جیسی سہی
جسم ہے برگزیدہ مگر رات کا
چل رہا ہوں یونہی کب کڑی دھوپ میں
آ رہا ہے ستارہ نظر رات کا
پوچھ منصور کی چشمِ بے خواب سے
کتنا احسان ہے شہر پر رات کا
Bookmarks