فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
کسی کا قرب اگر قربِٕ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِ مظلوم صدا رکھتی ہے
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
ہائے وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہائے وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
اب انھیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اس گلبدن کی بوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
چاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
مجھ کو آمادۂ سفر نہ کرو
راستے پُر خطر نہ ہو جائیں
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
کمتر نہ جانیں لوگ اُسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیب
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
Bookmarks