لہو ترنگ



جنگ آزادی کے شہیدوں کی یاد میں
پہلی آواز



ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی

ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے

ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں

ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے

فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی

سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے

نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے

ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلا لیں گے
دوسری آواز



جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا

انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو

بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں

زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو

ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا

سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو

محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے

ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو