ساحل سے دور جب بھی کوئی خواب دیکھتے

جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے



ہم نے فضول چھیڑ دی زخمِ نہاں کی بات

چپ چاپ رنگِ خندۂ احباب دیکھتے



غم کی بس ایک موج نے جن کو ڈبو دیا

اے کاش وہ بھی حلقۂ گرداب دیکھتے



بیتے دنوں کے زخم کریدے ہیں رات بھر

آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے



کشکولِ شعرِ تر لیے پھرتے نہ ہم شکیبؔ

اس ریشمیں بدن پہ جو کمخواب دیکھتے