وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا
رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا
اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا
سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی
ساحل نے ہے ندی کو مقیّد کیا ہوا
اے دوست چشمِ شوق نے دیکھا ہے بارہا
بجلی سے تیرا نام گھٹا پر لکھا ہوا
پہچانتے نہیں اسے محفل میں دوست بھی
چہرہ ہو جس کا گردِ الم سے اٹا ہوا
اس دور میں خلوص کا کیا کام اے شکیبؔ
کیوں کر چلے بساط پر مہرا پِٹا ہوا



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks