Page Reserved 4 introduction of Poet
Similar Threads:
Page Reserved 4 introduction of Poet
Similar Threads:
Last edited by intelligent086; 09-02-2014 at 10:00 PM.
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
رہتے ہیں کچھ ملول سے چہرے پڑوس میں
اتنا نہ تیز کیجیے ڈھولک کی تھاپ کو
اشکوں کی ایک نہر تھی جو خشک ہو گئی
کیوں کر مٹاؤں دل سےترے غم کی چھاپ کو
کتنا ہی بے کنار سمندر ہو پھر بھی دوست
رہتا ہے بے قرار ندی کے ملاپ کو
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیبؔ
تجسیم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانۂ جگرِ لخت لخت ایسا تھا
ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا، دل کا سخت ایسا تھا
یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
کوئی نہ سہہ سکے، لہجہ کرخت ایسا تھا
کہاں کی سیس نہ کی توسنِ تخیّل پر
ہمیں تو یہ بھی سلیماں کے تخت ایسا تھا
ادھر سے گزرا تھا ملکِ سخن کا شہزادہ
کوئی نہ جان سکا ساز و رخت ایسا تھا
مجھ سے ملنے شب غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا
ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنامِ خیالی ٹھہرو
میرا دل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
لوگ دیتے رہے کیا کیا نہ دلاسے مجھ کو
زخم گہرا ہی سہی، زخم ہے، بھر جائے گا
عزم پختہ ہی سہی ترکِ وفا کا لیکن
منتظر ہوں کوئی آ کر مجھے سمجھائے گا
آنکھ جھپکے نہ کہیں، راہ اندھیری ہی سہی
آگے چل کر وہ کسی موڑ پہ مل جائے گا
دل سا انمول رتن کون خریدے گا شکیبؔ
جب بکے گا تو یہ بے دام ہی بک جائے گا
ملا نہیں اذان رقص جن کو ،کبھی تو وہ بھی شرار دیکھو
اگر ہو اہلِ نگاہ یارو، چٹان کے آر پار دیکھو
یہ جان لینا وہاں بھی کوئی کسی کی آمد کا منتظر تھا
کسی مکاں کے جو بام و در پر بجھے دیوں کی قطار دیکھو
اگر چہ بے خانماں ہیں لیکن ہمارا ملنا نہیں ہے مشکل
اُدھر ہی صحرا میں دوڑ پڑنا، جدھر سے اٹھتا غبار دیکھو
عجب نہیں ہے پہاڑیوں پر شفق کا سونا پگھل رہا ہو
مکانِ تیرہ کے روزنوں میں یہ نور کے آبشار دیکھو
جو ابر ِ رحمت سے ہو نہ پایا کیا ہے وہ کام آندھیوں نے
نہیں ہے خار و گیاہ باقی، چمک اٹھا رہگزر دیکھو
وہ راگ خاموش ہو چکا ہے سنانے والا بھی سو چکا ہے
لرز رہے ہیں مگر ابھی تک شکستہ بربط کے تار دیکھو
اک آہ بھرنا شکیبؔ ہم سے خزاں نصیبوں کو یاد کر کے
کلائیوں میں جو ٹہنیوں کی مہکتی کلیوں کے ہار دیکھو
منظر تھا اک اجاڑ نگاہوں کے سامنے
کیا کیا نہ رنگ بھر دئیے افسوس شام نے
اس حادثے کی نخوتِ ساقی کو کیا خبر
بادہ پیا کہ زہر پیا تشنہ کام نے
چہرے سے اجنبی تھا وہ میرے لئے مگر
سب راز اس کے کہہ دئے طرز خرام نے
نکلا نہیں ہوں آج بھی اپنے حصار سے
حدِّ نگاہ آج بھی ہے میرے سامنے
تھے حادثوں کے وار تو کاری مگر مجھے
مرنے نہیں دیا خلشِ انتقام نے
اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیبؔ
دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامنے
اب آپ رہِ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے
پینا ہو تو اک جرعۂ زہراب بہت ہے
ہم تشنہ دہن تہمتِ بادہ نہیں رکھتے
اشکوں سے چراغإں ہے شبِ زیست، سو وہ بھی
کوتاہیِ مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے
یہ گردِ رہِ شوق ہی جم جائے بدن پر
رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے
ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں
ہم اس کے سوا مشعلِ جادہ نہیں رکھتے
سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
دامانِ طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے
آگ کے درمیان سے نکلا
میں بھی کس امتحان سے نکلا
پھر ہوا سے سلگ اٹھے پتے
پھر دھواں گلستان سے نکلا
جب بھی نکلا ستارۂ امید
کہر کے درمیان سے نکلا
چاندنی جھانکتی ہے گلیوں میں
کوئی سایہ مکان سے نکلا
ایک شعلہ پھر اک دھوئیں کی لکیر
اور کیا خاکدان سے نکلا
چاند جس آسمان میں ڈوبا
کب اسی آسمان سے نکلا
یہ گہر جس کو آفتاب کہیں
کس اندھیرے کی کان سے نکلا
شکر ہے اس نے بے وفائی کی
میں کڑے امتحان سے نکلا
لوگ دشمن ہوئے اسی کے شکیبؔ
کام جس مہربان سے نکلا
ہوائے شب سے نہ بجھتے ہیں اور نہ جلتے ہیں
کسی کی یاد کے جگنو دھواں اگلتے ہیں
شب بہار میں مہتاب کے حسیں سائے
اداس پا کے ہمیں، اور بھی مچلتے ہیں
اسیر دام جنوں ہیں، ہمیں رہائی کہاں
یہ رنگ و بو کے قفس اپنے ساتھ چلتے ہیں
یہ دل وہ کار گہ مرگ و زیست ہے کہ جہاں
ستارے ڈوبتے ہیں، آفتاب ڈھلتے ہیں
خود اپنی آگ سے شاید گزار ہو جائیں
پرائی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں
چوٹ ہر گام پہ کھا کر جانا
قُربِ منزل کے لئے مر جانا
ہم بھی کیا سادہ نظر رکھتے تھے
سنگ ریزوں کو جواہر جانا
مشعلِ درد جو روشن دیکھی
خانۂ دل کو منّور جانا
رشتۂ غم کو غمِ جاں سمجھے
زخمِ خنداں کو گلِ تر جانا
یہ بھی ہے کارِ نسیمِ سحری
پتّی پتّی کو جدا کر جانا
اپنے حق میں وہی تلوار بنا
جسے اک پھول سا پیکر جانا
دشمنوں پر کبھی تکیہ کرنا
اپنے سائے سے کبھی ڈر جانا
کاسۂ سر کو نہ دی زخم کی بھیک
ہم کو مجنوں سے بھی کم تر جانا
اس لیے اور بھی خاموش تھے ہم
اہلِ محفل نے سخن ور جانا
عشق پیشہ نہ رہے داد کے حق دار یہاں
پیش آتے ہیں رعونت سے جفا کار یہاں
سر پٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا، پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن
لب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں
سرخیِ دامنِ گُل کس کو میسّر آئی
اپنے ہی خوں میں نہائے لب و رخسار یہاں
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks