"مجھے کہنے دیجئے کہ اس قوم سے "ماں کھو گئی ہے
اگر آج ماں زندہ ہوتی تو بیٹیاں یوں سرِ بازار اپنی عزتوں کے جنازے نہ کاندھوں پر لئے پھرتیں۔اب تو یونیورسٹی کسی تعلیمی درسگاہ کی بجائے کوئی فیشن میلہ کا منظر دکھائی دیتی ہے۔ہر روز سینکڑوں طالبات میری نظروں سے گزرتی ہیں ۔پہلے تو آستینیں مختصر ہوتے ہوتے غائب ہو گئیں تھیں ،پھر شلواریں اور پاجامے دن بدن یوں اوپر چڑھ گئے کہ پنڈلیاں کھلتی ہی چلی گئیں اوراب توٹی وی کے فیشن شومیں کیٹ واک نے رہی سہی حیابھی چھین لی ہے ۔مجھے ذرا غصہ نہیں آتا ان بچیوں پر،مجھے غصہ آتا ہے ان ’’ماؤں‘‘ پرجن کے سامنے یہ بچیاں تیار ہو کرنوک پلک سنوار کرگھروں سے نکلتیں ہیں۔کیا یہ مائیں سمجھتی ہیں کہ یوں ان کے بہتر رشتے دستیاب ہو سکیں گے ؟تو بھول ہے یہ ان کی۔ایسے وہ کتنی ہوسناک نظروں کی تسکین کا سامان بنتی ہیں،کیا گھر واپس آنے والی بچیوں کی مائیں یہ سوچتی ہیں؟
میں درزی سے بضد تھی کہ میری بچی کی آستین ’’۲۱‘‘انچ کی ہو گی‘وہ کہہ رہا تھا :اس کپڑے میں صرف ’’۱۶‘‘انچ کی بن سکتی ہے ۔میں نے کہا کہ’’ میری بیٹی نہیں پہنے گی!‘‘اس پر اس نے جل کر دوکان کے دوسرے سلے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا’’یہ سب قمیضیں بغیر آستینوں کے ہیں،یہ آپ ہی کی بیٹیوں کی ہیں‘‘۔بھائی !آپ یقین کریں اس نے نیم خواندہ ہونے کے باوجود وہ طمانچہ مارا تھا قوم کی ماؤں کے منہ پرکہ میں مارے شرم کے کچھ بھی تو نہ کہہ سکی اور کپڑا اٹھا کر بوجھل قدموں سے دوکان سے نکل گئی۔طارق روڈ پر اپنی بارہ سالہ بیٹی کیلئے لباس کی تلاش میں گئی کہ کسی شادی میں پہننے کیلئے اس کو نیا جوڑا درکار تھا۔آپ یقین کریں کسی دوکان پر آستینوں والے کپڑے نہ مل سکے۔ایک دوکاندار بولا:
’’ آستینیں علیحدہ رکھی ہیں ‘آپ کنٹراس کر سکتی ہیں‘‘۔میں نے کہا کہ آستینیں قمیض سے علیحدہ کیسے ہو گئیں؟بولا’’مائیں پسند نہیں کرتیں آستینوں والے کپڑے!ہم تو وہی پروڈکٹس لاتے ہیں جن کی ڈیمانڈ ہوتی ہے‘‘۔
کیا بچیاں اپنی خریداری خود کرتی ہیں؟کیا ان کا ٹیسٹ ...ان کا ذوق ان کی مائیں ترتیب نہیں دیتیں؟
بھائی!مجھے بتائیں،میں وہ دن کیسے بھول جاؤں جب میری بیٹی کی میٹرک کی الوداعی تقریب تھی جس میں والدین مدعو تھے۔مائیں پنڈال میں تھیں اور باپ باہر گاڑیوں کے پاس موجوداور بچیاں جب والدین کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر گھروں کو روانہ ہونے لگیں تو میرا مضطرب دل دہائی دیتا رہ گیا کہ قوم سے ’’ماں‘‘ تو کھوئی تھی،اکبر الہ آبادی کی روح بھی تڑپ گئی ہو گی کہ سچ مچ آج کے باپ کی غیرت بھی عزتِ سادات کی طرح رخصت ہوگئی کہ نیم عریاں بازو،نظر آتی ہوئی پنڈلیوں،اسکرٹس کے ساتھ چست بلاؤز‘خاصے اونچے لہنگے،رنگے ہوئے بال۔آپ یقین کیجئے یہ کسی ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کا منظر میں آپ کو نہیں بتا رہی،یہ وہ سولہ اور سترہ سالہ دوشیزائیں تھیں جو مستقبل کی ’’مائیں‘‘ہیں۔میرا جی چاہا کہ جا کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں کہ حال کی ’’ماں‘‘کو عدالت کے ....کٹہرے میں کھڑاکیا جائے جس نے مستقبل کو یہ ’’ماں‘‘دی ہے
کوئی اور بعد میں،قصور وار پہلے میں خود ہوں،اس لئے کہ میں ایک ’’ماں‘‘ ہوں۔زمانے کی رو میں بہنے والی ،عقل و شعور سے عاری،خوفِ خدا سے دوراس معاشرے کی ’’ماں‘‘۔ایک مسلمان ماں نہیں ‘صرف ’’ماں
"ماں کھو گئی ہے"
!!!...... سمیع اللہ ملک"کے کالم سے اقتباس"
Bookmarks