مصنف:- شاہد بھائی
1قسط نمبر-1
نقاب پوش کے اشارے پر کلاشن کوف بردارز نے کلاشن کوف کی نال عرفان اور سلطان کی طرف کر دی ۔یہ دیکھ کر بھی ان کی آنکھوں میں موت کا خوف نظر نہیں آرہا تھا بلکہ سلطان کی آنکھوں میں اب بھی شرارت ہی شرارت تھی۔ اس کی لئے موت ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ دوسری طرف عرفان بھی مضبوط انداز میں کلاشن کوف بردراز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کا سامنے کرنے کو تیار تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں نے کلمہ طیبہ کا ورد بھی شروع کر دیا۔ اور پھر !!!۔۔۔ ایک زبردست فائر کی آواز فیکٹری میں گونج اُٹھی۔دوسرے ہی لمحے دل دوز چیخ نے فضا کے رونگٹے کھڑے کر دئیے۔نقاب پوش چیخ سن کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ چیخ عرفان یا سلطان کی نہیں تھی بلکہ یہ چیخ تو ان دو کلاشن کوف بردراز کی تھی جو عرفان اور سلطان کو موت کے گھاٹ اتارنے والے تھے۔نقاب پوش نے حیرت کے عالم میں ان دو کلاشن کوف والوں کے ہاتھوں سے خون کا فوارہ بہتے ہوئے دیکھا۔ کلاشن کوفیں ان کے ہاتھ سے نکل کر دور زمین پر پڑی تھیں اور پھر فیکٹری کے پچھلے دروازے سے شہباز احمد مسکراتے ہوئے داخل ہوتے نظر آئے۔ ان کے ساتھ سب انسپکٹر تنویر اور ایک خوبصورت نوجوان بھی نظر آرہا تھا۔ سب انسپکٹر تنویر کے ہاتھ میں پستول تھا جس سے انہیں نے کلاشن کوف بردارز کے ہاتھوں پر فائر کئے تھے۔
اباجان ۔۔۔ زندہ باد‘‘ عرفان بردارز نے نعرہ لگایا۔دوسری طرف نقاب پوش کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔
میرا خیال ہے اس نقاب پوش کو گرفتار کرہی لیں تنویر صاحب ۔۔۔ اب تو جیل کی سلاخیں ہی اس کے نصیب میں ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔ سب انسپکٹر تنویر سر ہلاتا ہوا نقاب پوش کی طرف بڑھا لیکن تبھی !!!۔۔۔ وہ سب چونک اُٹھے۔ نقاب پوش نے بے ہوش سادیہ کی طرف چھلانگ لگائی اور اسے دونوں ہاتھوں سے اُٹھاتے ہوئے اس کے گلے پر اپنے دونوں ہاتھ جما دئیے اور خونخوار نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
اگر ایک قد م بھی آگے بڑھایا تو سادیہ موت کی طرف قدم بڑھا دے گی ‘‘ نقاب پوش غرا کر بولا۔ان سب کی آنکھوں میں الجھن دوڑ گئی۔ شہباز احمد بھی ایک لمحے کے لئے پریشان ہوگئے۔سب انسپکٹر تنویر نے بے بسی کے عالم میں شہباز احمد کی طرف دیکھا ۔ انہوں نے واپس پیچھے ہٹنے کا اشارہ کر دیا۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔نقاب پوش کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ناچنے لگی۔ وہ سادیہ کے گلے پر اپنی گرفت رکھتے ہوئے فیکٹری کے دوسری کونے کی طرف بڑھنے لگا۔ اسی عالم میں سادیہ نے بھی آنکھیں کھول دیں۔ یہ منظردیکھ اس کی آنکھوں میں خوف دوڑ گیا۔ وہ سسکنے لگی۔ عرفان اور دوسرے بے چارگی کے عالم میں اسے دیکھ رہے تھے۔ نقاب پوش پیچھے ہٹتا جارہا تھا۔ اس کا رخ دروازے کی طرف تھا۔ تبھی ایک بار پھر ایک دلدوز چیخ فضا میں گونج اُٹھی۔ یہ چیخ کسی اور کی نہیں بلکہ خود نقاب پوش کی تھی۔ اس کے سر پر کسی نے بہت بھاری ڈنڈہ مارا تھا۔ اس کے ہاتھ سادیہ کے گلے پر جمے نہ رہ سکے اور وہ سادیہ کو چھوڑ کر اپنے سر کو پکڑ بیٹھا۔ سادیہ فوراً بھاگتے ہوئے اس کے پاس سے نکل کر شہباز احمد اور دوسروں کے پاس چلی آئی۔ اب وہاں موجود ہر شخص نے نقاب پوش کے پیچھے کی سمت دیکھا۔ اسے ڈنڈہ مار کر زخمی کرنے والا وہی نوجوان تھا جو شہباز احمد کے ساتھ فیکٹری میں داخل ہوا تھا۔ اس نوجوان پر نقاب پوش کا دھیان نہیں تھا لہٰذا موقع پا کر وہ بوریوں کے پیچھے دبک گیا اور دوسرے کونے سے نقاب پوش کے پیچھے سر پر پہنچ گیا اورپاس سے ایک لوہے کا ڈنڈہ اُٹھا کر اسے زخمی کر سادیہ کو چھڑا لیا۔ اس اجنبی نوجوان کے اس کارنامے پر دوسرے حیران رہ گئے۔ شہباز احمد کے چہرے پر بھی حیرت کے بادل تھے ۔ وہ اس اجنبی کو جانتے ضرور تھے لیکن اس کی اس قدر پھرتی سے وہ بھی لا علم تھے۔
ان کی تعریف کیا ہے اباجان ‘‘ عرفان نے اس اجنبی کو گھورتے ہوئے کہا۔
خادم کو شہزاد کہتے ہیں ‘‘ اجنبی نے تھوڑا سا جھک کر مسکرا کر کہا۔
کون سے خادم کو ‘‘ سلطان نے حیرت سے اِدھر اُدھر دیکھ کر پلکیں جھپکائیں۔
میرا مطلب ہے ۔۔۔ مجھے ۔۔۔ مجھے شہزاد کہتے ہیں ‘‘ اجنبی نے بوکھلا کر کہا۔
میں نے اباجان سے پوچھا تھا ۔۔۔ آ پ سے نہیں ‘‘ عرفان نے قدرے خشک لہجے میں کہا۔
بیٹا ۔۔۔ یہ شہزاد ہیں ۔۔۔ مجھے ابھی تھوڑ ے دیر پہلے دفتر میں ملنے آئے تھے ۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ میرااسسٹنٹ منظور اگرچہ رہا ہوگیا ہے لیکن کیس کے مطالعہ کے بعد انہیں بھی اس پر شک بہرحال ہے ۔۔۔ میں نے ان کو ساری صورتحال بتا دی کہ مجھے منظور کا کیس لڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔۔۔ اور اب میں خود بھی اسے اپنا اسسٹنٹ نہیں رکھوں گا ۔۔۔ بس یہ سن کر یہ ضد کرنے لگے کہ انہیں اپنا نیا اسسٹنٹ رکھ لوں ۔۔۔ آخر میں نے ہامی بھر لی ۔۔۔ تبھی مجھے تم لوگوں کا خیال آیا کہ تم لوگ نہ جانے گھر سے کہاں چلے گئے ہو ۔۔۔ تمہاری والدہ نے مجھے بتایا کہ تم سادیہ کی تلاش میں نکل پڑے ہو ۔۔۔ یہ سن کر میں اور فکر مند ہوگیا۔۔۔ میں نے سب انسپکٹر تنویر کو فو ن کیا کہ تمہاری تلاش شروع کردیں کیونکہ تمہیں گھر سے نکلے کافی وقت ہوگیا تھا ۔۔۔ فون پر مجھے سب انسپکٹر تنویر نے بتایا کہ تم لوگ کچھ دیر پہلے یہاں کے تھانے کے سب انسپکٹر بشیر رضا کے پاس موجود تھے ۔۔۔سب انسپکٹر بشیر رضا کو فون کیا تو انہوں نے اس فیکٹری کا پتا بتا دیا ۔۔۔یہ صاحب اس دوران دفتر میں ہی موجود رہے لہٰذا جب میں نے انہیں بتایا کہ میں تم لوگوں کی تلاش کے لئے جارہا ہوں تو انہوں نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کو بھی میں نے ساتھ لے لیا کیونکہ مجھے لگ رہاتھا کہ فیکٹری میں ہر طرح کے حالات پیش آسکتے ہیں ۔۔۔ لہٰذا ہم تینوں نکل کھڑے ہوئے اور اس وقت یہاں نظر آرہے ہیں ۔۔۔ اور اب کچھ دیر بعد یہ نقاب پوش صاحب حوالات میں نظر آئیں گے ‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
لیکن سب سے پہلے ان کا نقاب تو چہر ہ پر سے ہٹایا جائے ۔۔۔ ذر ہ دیکھیں تو ۔۔۔ اس نقاب کے پیچھے کس کا چہرہ پوشیدہ ہے ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان آگے بڑھا اور اس نے نقاب پوش کے چہرے سے نقاب نوچ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گئے۔انہیں حیرت کا ایک زبردست جھٹکا ۔ پھر وہ کھوئے کھوئے انداز میں اس چہرہ کودیکھنے لگے جو اس سارے ہنگامے کے پیچھے تھا۔
٭٭٭٭٭
تین دن بعد ایل ایل بی شہباز احمد عدالت میں جیسوال کی وکالت کرتے ہوئے اس کے دفاع میں کھڑے تھے۔ انہوں نے کیس کی فائل کو دوبارہ کھلوا لیا تھا اور جیل میں جا کر جیسوال کو اس بات پر بھی راضی کر لیا تھا کہ وہ انہیں اپنا وکیل مقرر کر لے۔ جیسوال بہت حیران تھا کیو نکہ اسے گناہ گار ثابت کرنے والے بھی شہباز احمد ہی تھے او راب اسے دوبارہ بے گناہ ثابت کرنے کے لئے بھی وہی اس کے دفاع میں لڑ رہے تھے۔جیسوال کو انہیں نے لا علم ہی رہنا دیا اور عدالت میں سچ سب کے سامنے لانے کا وعدہ کر دیا۔ اس وقت عدالت میں ایک طرف جیسوال مجرم کے کٹہرے میں کھڑاتھا تو دوسری طرف شہباز احمد مسکراتے ہوئے وکیل کی کرسی پر بیٹھے کیس کی فائل کو غور سے پڑ ھ رہے تھے ۔ پیچھے کرسیوں پر عرفان بردارز کے ساتھ ان کا کا نیا اسسٹنٹ شہزاد بھی بیٹھا ہوا تھا۔اس کے چہرے پر ایک دل کش مسکراہٹ تھی جیسے آج وہ پہلی مرتبہ عدالت آیا ہو اور شہباز احمد کا اسسٹنٹ بن کر اسے دنیا جہان کی خوشی مل گئی ہو۔ اس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی۔ وہ بیس اکیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔عرفا ن بردارز سے بس تین چار سال ہی عمر میں بڑا معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی پھرتی وہ تین دن پہلے فیکٹری میں دیکھ چکے تھے۔ شہزاد کے ساتھ ہی شہباز احمد کا سابقہ اسسٹنٹ منظور بھی حیرت بھرے انداز میں عدالت کی کرسی پربیٹھا ہوا تھا۔تبھی جج شکیل الرحمان عدالت میں داخل ہوئے اور اپنی کرسی پر برجمان ہوگئے ۔ اب عدالت کی کروائی شروع ہوگئی:۔
شہباز صاحب ۔۔۔ اس کیس کو دوبارہ کھلوا نے آپ کا مقصد کیا ہے ۔۔۔ آپ نے خودہی تو ایم اے جیسوال کو مجرم ثابت کیا تھا ۔۔۔پھر اب آپ دوبارہ انہیں بے گناہ ثابت کیوں کرنا چاہتے ہیں ‘‘ جج صاحب الجھن کے عالم میں بولے۔
میں اعتراف کرتا ہوں جج صاحب کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ۔۔۔ جیسوال صاحب بالکل بے گناہ ہیں ۔۔۔ انہیں نے اپنے خاندان کو اور دوسرے مشہور وکلا کو موت کے گھاٹ نہیں اتارا۔۔۔ان کے خلاف جس ٹیکسی ڈرائیور نے گواہی دی میں اسے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں ‘‘ شہباز احمد یہاں تک کہہ کر اجازت طلب نظروں سے جج صاحب کو دیکھنے لگے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے ہامی بھر لی۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی ڈرائیور کاشف کٹہرے میں داخل ہوا ۔ شہباز احمد اس کے قریب آئے اور اسے مخاطب کیا:۔
اب آپ اپنا اصل بیان ریکارڈ کروادیں ‘‘ شہباز احمد عجیب سے لہجے میں بولے۔
جی شہبا ز صاحب !!!۔۔۔ جج صاحب! ۔۔۔ دراصل پچھلی سنوائی میں ، میں نے بالکل جھوٹا بیان دیا تھا۔۔۔ مجھے جیسوال صاحب نے کسی قسم کی کوئی رشو ت نہیں دی تھی ۔۔۔ بلکہ رشوت تو مجھے شہباز صاحب نے د ی تھی اس جھوٹی گواہی کے لئے ۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں جج صاحب کہ میں نے پیسے لے کر جھوٹا بیان دیا ‘‘ ڈرائیور کاشف نے ندامت سے گردن جھکا لی۔
یہ آپ نے کیا لگا رکھاہے ۔۔۔ پچھلی سنوائی میں آپ نے کہا کہ آپ کا اُس سے پچھلی سنوائی والا بیان جھوٹا تھا ۔۔۔ اور اب آپ اس بار کہہ رہے ہیں کہ آپ کا پچھلی بار والا بیان جھوٹا تھا۔۔۔آپ نے عدالت کی کروائی کو مذاق سمجھ رکھا ہے ‘‘ جج صاحب گرج کر بولے۔
میں شرمندہ ہوں جج صاحب ۔۔۔ اصل بیان وہی تھا جو میں نے پچھلی سے پچھلی سنوائی میں دیا تھا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے منظور کو گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ اور یہ بیان شہباز صاحب کے بچوں کا بھی تھا لیکن شہباز صاحب نے زبردستی ان سے بھی جھوٹا بیان دلوایا تھا ‘‘ ڈرائیور کاشف نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
یہ سچ کہہ رہے ہیں جج صاحب ۔۔۔ میرے بچوں کو میں نے ہی جھوٹی گواہی پر مجبو ر کیااور پچھلی سنوائی سے پہلے ڈرائیور کاشف کو بھی میں نے پیسے دے کر جھوٹا بیان دینے پر راضی کیا۔۔۔ اس بات کی تصدیق کے لئے میں اپنے بچوں میں سے نمائندگی کے طور پر عرفان کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا‘‘ شہباز احمد نے جلدی جلدی کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب سرد آہ بھر کر بولے۔عرفان نے اپنی کرسی چھوڑی اور کٹہرے میں داخل ہوگیا۔ شہباز احمد اس سے مخاطب ہوئے۔
عرفان ۔۔۔ سچائی جج صاحب کو بتاؤ ‘‘ شہباز احمد نرم آواز میں بولے۔
جج صاحب ۔۔۔ پچھلی سے پچھلی سنوائی میں ہمیں اباجان نے ہی جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیاتھا۔۔۔ سچائی یہ ہے کہ ہم نے بھی منظور کو دھماکے کے بعد جیسوال صاحب کے گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔ ہم بھی اس جھوٹی گواہی پر شرمندہ ہیں ‘‘ عرفان نے نظریں جھکا لیں۔
میرا خیال ہے جج صاحب ۔۔۔ اب یہ بات شیشے کی طرح صاف ہوچکی ہے کہ منظور اس کیس میں مجرم ہے ۔۔۔ اس کے خلاف سب سے پہلے گواہ تو جیسوال صاحب خود ہیں جنہوں نے اسے اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔دوسرا گواہ ٹیکسی ڈرائیور کاشف ہے ۔۔۔ جو اسے گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھ چکا ہے ۔۔۔ تیسرے گواہ میرے چاروں بچے ہیں ۔۔۔ اگر انہیں الگ الگ گواہ کے طور پر لیا جائے تو گواہوں کی تعداد چھے ہو جائے گی ۔۔۔ اس کے بعد ساتویں گواہ سب انسپکٹر تنویر ہیں جنہوں نے موقع پر پہنچ کر زخمی منظور کو گرفتار کیا۔۔۔میرا خیال ہے اتنے گواہ منظور کو مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں ‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
اس کا مطلب ہے ۔۔۔ اس کیس میں اصل مجرم منظور ہی ہے ۔۔۔ اور جیسوال صاحب بے قصور ہیں ۔۔۔ پھر تو یہ عدالت ۔۔۔‘‘ جج صاحب نے اتنا ہی کہا تھا کہ شہباز احمد بو ل پڑے:۔
ابھی فیصلہ سنانے میں جلدی نہ کریں جج صاحب ۔۔۔ اس کیس میں منظور مجرم ضرور ہے لیکن اس سے کسی اور نے یہ کام لیا ہے ۔۔۔ اصل مجرم اب بھی ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے ۔۔۔اُس اصل مجرم کو میں عدالت میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا کہ جس نے نہ صرف جیسوال صاحب کے خاندان کا صفایا کیا بلکہ کئی مشہور وکلا کی بھی جانیں لیں ۔۔۔اور ساتھ ہی مجھے مجرم منظور کے خلاف کیس لڑنے پر مجبور کیا۔۔۔ میری بیٹی سادیہ کو اغوا کرکے اس اصل مجرم نے مجھے بھی اغواکیا اور یہ دھمکی دی کہ اگر میں نے گناہ گار منظور کو بے گناہ ثابت نہ کیا تو میری بیٹی کو موت کے گھاٹ اُتار دے گا۔۔۔ تین دن پہلے ہم اس اصل مجرم تک پہنچ گئے اور سادیہ کو رہائی نصیب ہوئی‘‘ شہباز احمد کہتے چلے گئے۔
اوہ !۔۔۔ اس کا مطلب ہے آپ نے یہ جھوٹی گواہیاں اس لئے دلوائی کہ آپ اپنی بیٹی کی جان بچانا چاہتے تھے ‘‘ جج صاحب نے حیران ہو کر کہا۔ جیسوال کے چہرے پر بھی حیرت نظر آنے لگی۔
جی ہاں جج صاحب ۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی بھی جھوٹ کا ساتھ نہیں دیتا ۔۔۔ لیکن اس کیس میں مجھے مجبور کیا گیا تھا کہ میں ایک مجرم کا کیس لڑؤں ۔۔۔ مجرم کا کیس‘‘ شہباز احمد کی آواز عدالت میں گونج اُٹھی۔
پھر تو آپ کی سزا میں بھی نرمی کی جاسکتی ہے ۔۔۔ ورنہ میں آپ کو عدالت کو گمراہ کرنے کے جرم میں سخت سزا سنا سکتا تھا ‘‘ جج صاحب نے مطمئن ہو کر کہا۔
میں ہر سزا برداشت کرنے کو تیار ہوں جج صاحب ۔۔۔ کیونکہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے لیکن اس سے پہلے میں اس کیس کے اصل مجرم کو کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا جس نے یہ سارا کھیل کھیلا‘‘ شہباز احمد نے اجازت طلب نظریں جج صاحب کی طرف اُٹھائیں ۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے کہا۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد کی نگاہیں سب انسپکٹر تنویرکی طرف اُٹھ گئیں ۔ وہ فوراً عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ واپس آگیا۔اس بار سب انسپکٹر تنویر تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ اس شخص کی طرف دیکھ کر عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے نکلا:۔
اوہ !۔۔۔ تو یہ اصل مجرم ہے ‘‘ ۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
Bookmarks