ٹیپو سلطان اور محمد علی کمیدان کی کہانی

طیب رضا عابدی
محمد علی کمیدان میسور کے حکمران ٹیپو سلطان کا دست راست اوربہادر سپہ سالارتھا۔ اس نے اپنی عقلمندی سے بہت سے معرکوں میں انگریزوں کو شکست اور مقامی غداروں کو منہ کی کھانے پر مجبور کیا تھابلکہ اپنی حکمت عملی سے اس نے ایک مرتبہ دارالحکومت سرنگاپٹم کو سازش پرور لوگوں سے آزاد بھی کرایا تھا اور اسی بنا پر وہ ٹیپو سلطان کے خاص مصاحبوں میں سے تھا۔ لیکن ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ خود سر بھی تھا جس بات پر ڈٹ جاتا پھر سلطان کی بھی نہیں سنتا تھا۔ اسی خامی کی وجہ سے محمد علی کمیدان کو دردناک موت کا سامنا کرنا پڑا ۔ ہوا کچھ یوں کہ بدنور (حیدر نگر) کا علاقہ ریاست میسور کا ایک سرسبز و شاداب خوبصورت اور خوشحال علاقہ مشہور تھا۔ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی کے دور سے ہی وہاں کا قلعہ دار قاسم علی خان جبکہ حاکم شیخ ایاز تھا۔ حیدر علی نے اس کا نام بدنور سے تبدیل کرکے حیدر نگر رکھ دیا تھا۔ انگریزوں نے اپنی سازشوں کا جال اس طرح بنا کہ بدنور کے علاقے کو فتح کرنے کیلئے شیخ ایاز سے ساز ش کی اور اس کو اپنے ساتھ ملا لیا ۔ شیخ ایاز کے انگریزوں کے ساتھ ملنے کا علم جب ٹیپو سلطان کو ہوا تو اس نے شیخ ایاز کا سرقلم کرنے کا فرمان جاری کردیا جس کا علم ہونے پر شیخ ایاز انگریزوں کے ساتھ اس شرط پر شامل ہوا کہ وہ اسے بدنور کا حاکم برقرار رکھیں گے ۔ اسی دوران غدار شیخ ایاز نے اپنی سازش میں قلع دار قاسم علی خان کو بھی شامل کرلیا۔ ٹیپو سلطان کو جب معلوم ہوا تو وہ انگریزوں کو بدنور سے بیدخل کرنے کیلئے ایک لشکر جرار لے کر وہاں پہنچا اور شدید لڑائی کے بعد انگریزوں کو شکست دیدی ۔ لڑائی کے دوران شیخ ایاز مدراس کی طرف بھاگ گیا جبکہ قاسم علی خان نے سپہ سالار محمد علی کمیدان کے یہاں پناہ لی اور زندگی کی امان دینے کی درخواست کی۔ محمد علی کمیدان نے اسے جان کی امان دیدی اور گرفتارکر کے ٹیپو سلطان کے دربار میں پیش کیا۔ ٹیپو سلطان قاسم علی خان کو دیکھ کر شدید غضب ناک ہوا اور پوچھا کہ تو نے بدنور قلعہ کو دشمنوں کے حوالے کیوں کیا اور سامان حرب اور وسیع ذخیرہ ہونے کے باوجود مزاحمت کیوں نہیں کی ۔ قاسم علی خان بولا کہ سرکارانگریزوں کو دیکھ کر نائیکوں نے بغاوت کردی تھی ۔ محافظ بھی حکم عدولی پر اتر آئے تھے جس پر وہ مجبور ہوگیا تھا اور اسے قلعہ انگریزوں کے حوالے کرنا پڑا۔ اس پرٹیپو سلطان نے کہا کہ مان لیا کہ نائیکوں نے بغاوت کردی تھی لیکن تو انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطنت خداداد کی فوج سے کیوں لڑا اور تیرے محافظ سپاہیوں کا دستہ انگریزوں کے ساتھ کیوں رہا۔ اس نے پھر یہی جواب دیا کہ وہ مجبور تھا اور انگریزوں نے ساتھ نہ دینے پر سرقلم کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ٹیپو سلطان کے درباری اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور قانون کے مطابق غدارکا سرقلم کرنے کا مشورہ دیا۔ ٹیپو سلطان نے قاسم علی خان کا سر قلم کرنے کا فرمان جاری کردیا اور اسے محمد علی کمیدان کی تحویل میں دیدیا ۔ محمد علی کمیدان قاسم علی خان کو جان کی امان دینے کی قسم دے چکا تھا اس لئے جب پہریدار صبح اسے لینے پہنچے تو محمد علی کمیدان نے شدید مزاحمت کی اور قاسم علی خان کو نہ جانے دیا۔ جب ٹیپو سلطان کو اس ہنگامے کی اطلاع ملی تو اس نے محمد علی کمیدان کو تنہائی میں طلب کیا اور سمجھایا کہ دیکھو میں نے یہ فیصلہ قانون اور ریاست کی عملداری کیلئے کیا ہے تاکہ آئندہ کسی قلع دار کو اس طرح بزدلی دکھانے کی ہمت نہ پڑے۔ سب درباریوں کی بھی رائے یہی ہے۔ حکم واپس نہیں لیا جاسکتا ۔ یہ سن کر محمد علی کمیدان سلطان کے پاس سے اٹھ آیا اور جب پہریدار پھر قاسم علی خان کو لینے گئے تو محمد علی کمیدان پھر بیچ میں آگیا اور مزاحمت کرتے ہوئے پہریداروں سے اسے چھڑا کر اپنے دوسو محافظوں کے ساتھ سرنگا پٹم سے روانہ ہوگیا۔ ٹیپو سلطان نے ان کے تعاقب میں فوجی روانہ کئے ۔ محمد علی کمیدان اور قاسم علی خان چار کوس دور ہی گئے ہوں گے کہ فوج نے گرفتار کرلیا اور ٹیپوسلطان کی خدمت میں پیش کردیا۔ سزاکے طورپر قاسم علی خان کو پھانسی دیدی گئی اور غداری کرنے پر آدھے محافظوں کے ناک اورکان کاٹ ڈالے گئے۔ٹیپو سلطان نے اپنے دست راست محمد علی کمیدان کو نظر بند کرنے کا حکم دیا۔ جن محافظوں کے نا ک کان کٹے تھے وہ محمد علی کمیدان کو کوستے رہتے کہ اس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچے اور تباہ و برباد ہوگئے ۔ وہ خود بھی ذلیل ہوا اور انہیں بھی ذلیل کروایا۔ان طعنوں اور ایسی ہزیمت کی باتوں سے دلبرداشتہ ہوکر اس نے نظر بندی میں ہی اپنی انگوٹھی کے ہیرے کی کنی سے خودکشی کرلی۔ ٹیپوسلطان کو اس کی موت کا شدید صدمہ پہنچا اور وہ اتنے بہادر لیکن خودسر سپہ سالار کو کھوکر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ محمد علی کمیدان ایک سخی انسان تھا ، سب کچھ غریبوں پر خرچ کردیتا تھا۔ وہ تنخواہ بھی نہیں لیتا تھا ، کئی مربع اراضی کا مالک تھا لیکن جب موت کے بعد اس کا سامان دیکھا گیا تو لباس، ایک گڈری اور بستر کے سواکچھ برآمد نہ ہوا۔ دوستو ۔۔اس قصہ سے نصیحت ملتی ہے کہ بعض اوقات انسان اپنی خودسری سے بہت نقصان اٹھاتا ہے ۔ خود سری اچھی عادت نہیں ۔ ٭٭٭