یوں تو چیف جسٹس کے تمام اقدامات اخبارات میں پڑھنے، بریکنگ نیوز میں دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں اور رات آتے آتے ٹی وی ٹاک شوز میں موضوع بحث بھی بن جاتے ہیں۔ شہرِ کراچی میں آویزاں پوسٹرز ظاہر کرتے ہیں کہ اُن کے از خود نوٹس کو خوب پذیرائی بھی حاصل ہو رہی ہے، اب یہ تو ہے تصویر کا ایک رخ ہے مگر تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ کچھ یوں ہے کہ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار جن وکلاء کو اپنا سپاہی قرار دے رہے ہیں، دراصل وہ خود بہت سے فیصلوں سے غیر مطمئن نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے 3 صوبوں خیبرپختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں ان کے فیصلوں اور اقدامات پر وکلاء کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
آج کل وکلاء کی جانب سے بار کونسلز میں جو گفتگو ہوتی ہے اس سے محسوس ہو رہا ہے کہ چھوٹے صوبوں کے وکلاء کے اندر احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس دوست محمد خان ہوں یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا پھر جسٹس شوکت عزیز صدیقی، وکلاء ان کے ساتھ ہونے والے رویوں پر خوش نظر نہیں آتے ہیں۔ بار کونسلز کے رہنما دبی دبی زبان میں بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں اور اب تو بول بھی رہے ہیں لیکن وہ لاوا جو اُن وکلا کے اندر پک رہا ہے اس کو کیا شکل ملے گی؟ وہ اپریل کے پہلے ہفتے میں کراچی میں ہونے والے وکلاء کے اجتماع میں پتہ چلے گا، جس میں ملک بھر سے بار کونسلز کے رہنما اور وفود شرکت کریں گے۔
سندھ کی سب سے بڑی بار کونسل نے مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے عندیہ دے دیا ہے اور اگر ایسا ہوا ہے تو ممکن ہے کہ ہندوستان کے بعد پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بھی کچھ نئے واقعات رقم ہوں جو جمہوریت کا حسن تو ہوں مگر شاید عدالتی تاریخ کے اعتبار سے خوش نما نہ ہوں۔
پشاور کے وکلاء ریٹائرڈ جج دوست محمد خان کو فُل کورٹ ریفرنس نہ دیے جانے پر ناراض ہیں، بنوں سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ جسٹس دوست محمد خان ماضی میں اپنے سخت فیصلوں کے باعث کافی شہرت رکھتے ہیں، اُنہوں نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی بھی سماعت کی ہے۔ ماضی میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانے والے معزز جج کو فُل کورٹ ریفرنس نہ ملنے کے حوالے سے ایک نجی نیوز چینل نے رپورٹ کیا کہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ یحییٰ آفریدی نے بھی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات کرکے پشاور ہائی کورٹ بار کی ناراضگی سے آگاہ کیا۔
فل کورٹ ریفرنس کسی بھی ریٹائرڈ ہونے والے معزز جج کے اعزاز میں دیا جاتا ہے، جس میں ان کے ساتھی معزز جج صاحبان، وکلاء رہنماؤں اور وکلاء کی ایک بڑی تعداد شریک ہوکر قانون کی عمل داری کے لیے اُن کی خدمات کو سراہتی ہے۔ وکلاء کی ناراضگی اس وقت کچھ زیادہ بڑھ گئی جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ہونے والی ڈھائی سال پرانی ایک درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی گئی، پشاور میں 17 مارچ کو ہونے والے بار کونسل کے اجلاس میں دونوں ججز کے ساتھ اس رویے کو انتہائی سخت الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن میں 15 ہزار سے زائد وکلاء رجسٹرڈ ہیں۔ ایم آر ڈی تحریک ہو یا عدلیہ بحالی تحریک، کراچی بار نے ہر تحریک میں فعال کردار ادا کیا ہے، اور یہ اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ سندھ بھر کی بار کونسلز کا عمومی رحجان ہے کہ وہ مسائل کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہیں جس زاویہ نگاہ سے کراچی بار دیکھتی ہے۔
کراچی بار نے وکلاء کی اس بے چینی کو دیکھتے ہوئے اپنی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل سے بھی آگاہ کیا ہے اور کراچی سمیت سندھ بھر کے وکلاء کو یہ پیغام دیا ہے کہ اُن کی بے چینی کو دور کرنے کے لیے وہ ہر ممکن اقدام کریں گے۔ سندھ کے وکلاء اب یہ برملا کہہ رہے ہیں کہ گزشتہ 5 سے 6 ماہ کے دوران مختلف فیصلوں نے اُن کو بے چین کر رکھا تھا، جس کی نشاندہی وہ مختلف فورمز پر کرتے رہے ہیں۔ مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ ناقابل برداشت ہے اور وکلاء برادری کو اس پر شدید تحفظات ہیں۔ یاد رہے کہ 12 مئی کے متعلق مقدمے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سندھ کے وکلاء کا مقدمہ لڑا تھا۔
کوئی سن تو نہیں رہا، آپ کا موبائل کیمرہ تو نہیں کھلا، کہیں کچھ بولوں تو نہال ہاشمی تو نہیں بنائیں گے، جیسے فقرے کستے اسلام آباد اور لاہور کے وکلاء بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد خان اور جسٹس شوکت صدیقی کے معاملات پر ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتے ہیں، بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بار کونسلز میں چائے کی چسکیوں کے ساتھ سب زیادہ انہی موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے اور کم و بیش تمام وکلاء کی رائے اس حوالے سے یکساں نظر آتی ہے۔
سندھ، پشاور اور بلوچستان کے وکلاء نے بھی اس حوالے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جو کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں ان کے معاملے پر وکلاء کا ماننا ہے کہ اُنہیں سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نادر خان اور ان کے ساتھ دیگر وکلاء یہ مانتے ہیں کہ سانحہ کوئٹہ پر بننے والی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مسلسل سازشوں کا سامنا ہے، ایک ایسا جج جنہوں نے آزاد عدلیہ کے لیے قربانیاں دی ہوں اور زندگی بھر ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کام کیا ہو، ان کے خلاف اگر کوئی سازش ہو، تو بلوچستان کے وکلاء سمیت ملک بھر کے وکلاء سڑکوں پر ہوں گے۔
سانحہ کوئٹہ میں 56 وکلاء سمیت 73 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کی تھی، جس میں محکمہء داخلہ کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے تھے، اس رپورٹ کو محکمہ داخلہ نے عدالت میں چیلنج بھی کیا تھا۔
وکلاء کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران کچھ سخت ریمارکس دیے تھے، اس کے 3 دن کے بعد ان کے خلاف ڈھائی سال پرانی پٹیشن کو قابلِ سماعت قرار دینا خود ایک سوال ہے کہ کیسے وہ اچانک قابلِ سماعت ہوگئی۔ وکلاء یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ کچھ عناصر نہیں چاہتے کہ کوئی غیر جانبدار اور سخت فیصلے کرنے والا جج عدلیہ میں رہے، سانحہ کوئٹہ پر اُن کی تحقیقاتی رپورٹ تاریخ میں یاد رکھی جائے گی اور ان کی خدمات کو فراموش نہیں کریں گے۔
خیبر پختونخوا کی بار کونسلز ہوں، یا بلوچستان، سندھ، پنجاب یا پھر اسلام آباد کی، سب کے رہنماؤں کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آرہا ہے کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کیے بغیر کام کریں تاکہ عدالتوں میں التوا کا شکار لاکھوں مقدمات کو نمٹایا جاسکے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عدلیہ کی اصل ذمہ داری مقدمات کو نمٹانا اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہے، اگر عدلیہ اس پر سنجیدگی سے کام کرے تو ٹی وی چینلز پر اور اخبارات میں ایسی خبریں دیکھنے کو نہیں ملیں گی کہ فلاں قیدی 20 سال بعد بے قصور قرار دیا گیا۔
صدر کراچی بار، حیدر امام رضوی کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ گزشتہ چند دنوں میں ایسی تقریریں کی گئیں جن کی ضرورت نہیں تھی۔ عدالتِ عظمیٰ کو کسی معاملے پر وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے، اگر وضاحتیں آتی ہیں تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہے، جج نہیں بولتا اس کے فیصلے بولتے ہیں۔
وکلاء کا کہنا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد خان کو ریفرنس نہیں دیا گیا اور اس پر کوئی وضاحت نہیں آنا غیر اطمینان بخش ہے۔ وکلاء کے درمیان اس عدم اطمینان کو ختم کرنے کے لیے وضاحت نہایت ضروری ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی ایک ادارے کے خلاف ریمارکس دینے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں طلب کرنا حیران کن ہے۔ انہوں نے جو ریمارکس دیے، آئین کی آرٹیکل 199 کے تحت وہ اس کا اختیار بھی رکھتے تھے، اسے مس کنڈکٹ قرار دینے اور ان کی طلبی سے عدلیہ کی خود مختاری متاثر ہوتی ہے۔
سندھ کے وکلاء تو کراچی کی مختلف شاہراؤں میں لگنے والے چیف جسٹس کے پوسٹرز اور بینرز سے بھی ناراض نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ آئینی طور پر درست نہیں، اس سے چیف جسٹس اور اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے، عدالت عظمیٰ کو اس پر نوٹس لیتے ہوئے ان کو ہٹائے جانے کا حکم دینا چاہیے تھا۔ کراچی بار کے صدر حیدر امام رضوی کا کہنا ہے کہ ججز کی آؤٹ آف ٹرن پروموشنز کو سندھ کے وکلاء اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے، انہیں سننے میں آرہا ہے کہ ایک جج کی سپریم کورٹ میں خدمات حاصل کرنے کے لیے ججز کو سپرسیڈ کرانے کی تیاری کی جارہی ہے ہم اس کو مناسب نہیں سمجھتے۔
کراچی بار کونسل نے 18ویں ترمیم سے متعلق منفی بیانات پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلاء کا کہنا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 18ویں ترمیم پارلیمنٹ سے منظور ہوئی ہے اور اسے تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا تھا، ایسے میں یہ باتیں کرنا کہ شیخ مجیب کے 6 نکات سے بھی برا ہے، درحقیقت پارلیمنٹ کے ساتھ زیادتی ہے، کیونکہ قانون سازی کاحق پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور کوئی سمجھتا ہے کہ یہ قانون ملکی سالمیت و خود مختاری کے خلاف ہے یا اس میں کوئی کمی یا زیادتی ہے تو اس کے لیے اسے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔

بشکریہ .. فاروق سمیع