ترقی یافتہ ملکوں کے سائنس دانوں نے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے سورج کی روشنی کو مدھم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ انھیں امید ہے کہ انسانوں کی تخلیق کردہ 'کیمیائی چھتری' دنیا کے خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت میں کمی لانے کے لیے کارگر ثابت ہو گی۔
سولر جیو انجینیئرنگ' کا یہ منصوبہ ایسا ہی ہے جیسے بڑے پیمانے پر پھٹنے والے آتش فشاں جن سے بہت زیادہ مقدار میں راکھ خارج ہو کر فضا میں پردہ تان دیتی ہے جس سے سورج کی حرارت کا ایک حصہ زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پاتا۔
بنگلہ دیش، برازیل، چین، ایتھیوپیا اور انڈیا اور دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے 12 ماہرین نے سائنسی جریدے نیچر میں بدھ کے روز ایک مقالے میں لکھا ہے کہ غریب ملک ماحولیاتی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہوں گے اس لیے انھیں اسے حل کرنے کے منصوبوں میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دی جائے۔
مرکزی مصنف عتیق الرحمٰن نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا: 'سولر جیو انجینیئرنگ کا تصور پاگل پن ہے لیکن یہ تحقیق کی دنیا میں جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔'
اس منصوبے کے آغاز کے طور پر سولر ریڈی ایشن مینیجمنٹ گورننس انیشی ایٹیو (ایس آر ایم جی آئی) کے نام سے چار لاکھ ڈالر مختص کیے ہیں جس کے تحت سائنس دانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیقات پیش کریں۔
ایس آر ایم جی آئی کے لیے رقم اوپن فلانتھراپی پروجیکٹ نے فراہم کی تھی جسے فیس بک کے شریک بانی کاری ٹیونا نے شروع کیا تھا۔
اس کے تحت ترقی پذیر ملکوں کے سائنس دانوں کو جیو انجینیئرنگ کا مقامی سطح پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ کرنے میں مدد دی جائے گی۔ ان اثرات میں خشک سالی، سیلاب، اور برساتیں شامل ہیں۔
رحمٰن نے کہا کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ جیو انجینیئرنگ کام کرے گی یا نہیں۔ اس کے تحت زیرِ غور منصوبوں میں سے ایک یہ ہے کہ جہازوں کے ذریعے زمین کی فضا میں سلفر کے ذرات پھیلائے جائیں جو سورج کی شعاعوں کو منعکس کر کے واپس بھیج دیں۔
عتیق رحمٰن نے لکھا ہے کہ 'یہ تکنیک متنازع ہے۔ ابھی یہ بات قبل از وقت ہے کہ آیا اس کے اثرات فائدہ مند ہوں گے یا نقصان دہ۔
اقوامِ متحدہ کے ماہرین کے ایک پینل نے ماحولیاتی تپش کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کی ہے جو اکتوبر میں شائع ہو گی، البتہ اس کے لیے افشا شدہ مسودے کے مطابق سولر جیو انجینیئرنگ پر شکوک ظاہر کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ یہ 'معاشی، سماجی اور ادارہ جاتی طور پر قابلِ عمل نہیں ہے۔'
مسودے کے مطابق اس کے خطرات موسم کی ترتیب کو بےربط کر دینا شامل ہے اور اس کی وجہ سے ملکوں کو صاف توانائی استعمال نہ کرنے کی شہ ملے گی۔
تاہم عتیق رحمٰن کا کہنا ہے کہ اب تک ترقی یافتہ ملک گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں، جس سے اس قسم کے انقلابی منصوبے زیادہ پرکشش ہو گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ دنیا کے درجۂ حرارت میں صنعتی دور سے قبل کے درجۂ حرارت سے تین درجے تک اضافہ ہونے والا ہے، جو کہ پیرس معاہدے میں تجویز کردہ دو درجے سے بہت زیادہ ہے۔ اس معاہدے پر دو سو ملکوں نے دستخط کیے تھے۔