سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں 1979 سے قبل تک خواتین کو کار چلانے اور ملازمت کرنے کا پورا حق تھا، دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی سینما تھے اور پوری دنیا میں زندگی گزارنے والوں کی طرح ہم بھی عام سوچ کے حامل تھے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق 60 منٹس نامی انگریزی پروگرام میں شہزادہ محمد بن سلمان نے بتایا کہ سعودی عرب میں خواتین کے حقوق سے متعلق مسائل کا تعلق وہابیت سے نہیں بلکہ اس کی کہانی 19 سالہ سعودی شہزادے سے وابستہ ہے جو ایک لڑکی کو اپنے ہمراہ لے کر فرار ہونا چاہتا تھا لیکن پکڑا گیا۔
انہوں نے وضاحت پیش کی کہ ‘ان دونوں کو 1977 میں قتل کر دیا گیا اور 1980 میں اس موضوع پر فلم بھی بنائی گی جس کے بعد خواتین کا غیر محرم کے ہمراہ سفر کرنا ممنون قرار دے دیا گی۔
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 1980 میں وزیر صعنت اور بجلی غازی الغصیبی نے اس وقت کے بادشاہ کو خواتین کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر تنقید اور خواتین سے متعلق پالیسیوں پر غور کرنے کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے صرف ںظر سے کام لیا۔
انہوں نے کہا کہ 50 اور 60 کی دہائی میں سعودی عرب نے مصر کے صدر جمال عبدالناصر سے خوفزدہ مصری شہریوں کو کھلے دل سے قبول کیا، وہ لوگ اخوان المسلیمن کے حامی اور اسلامی نظریہ اور قوانین کی نئی تشریح اپنے ساتھ لائے تھے, جنہیں ہمارے آباؤ اجداد نے سینے سے لگایا۔
60 کی دہائی میں پہلا لڑکیوں کا پبلک اسکول تعمیر ہوا تو مذہبی طبقے نے شدید مخالفت کی، ملک کو 21 وی صدی کے خطوط پر استوار کرنے کے لیے اخوان المسلیمن کے نظریات کا مقابلہ کرنے کے لیے وہابی علماء کو تقویت دی گئی۔
فیصل بن العزیز آل سعود کو 1975 میں قتل کردیا گیا، وہ شیخ منا القطان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو ملک میں عدالتی نظام میں جدید اصلاحات چاہتے تھے لیکن یہ مرحلہ تعطل کا شکار رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج سعودی عرب میں لوگ بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، مذہبی اور سماجی اسکالرز پر پابند سلاسل کا خوف غالب ہے، ماضی میں سخت گیر وہابی علماء کی جانب سے قدرے آزاد خیال کام کی مخالفت جاری تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے، اب صرف ان چیزوں پر پابندی عائد ہوگی جو شدت پسندی کے فروغ کا باعث بنے جیساکہ ریاض انٹرنیشنل بک فیئر میں ہوا۔