Ubaid (03-12-2018)
گذشتہ روز میاں نواز شریف نے احتساب عدالت پیشی کے بعد راولپنڈی اسلام آباد کی ایک مشہور بیکری کا مطالعاتی دورہ کیا۔ ان کی کھانے پینے کی مختلف اشیاء کا مشاہدہ کیا اور ان کے معیار کی ستائش کی۔ ان کے ھمراہ ان کی دختر مریم نواز اور پرویز رشید بھی تھے۔ نظریاتی نواز شریف اور ھمارے موجودہ سپہ سالار جنرل باجوہ میں ایک قدر تو مشترک دکھائی دی کہ دونوں اس بیکری کے دلدادہ ہیں۔
سیاستدانوں کی ذاتی زندگی بھی ہوتی ھے انہیں کسی بھی جگہ اور کاروباری مرکز جانے کا حق حاصل ھے لیکن اس سے ان سیاستدانوں کی ذاتی پسند ناپسند اور دلچسپی کا پتہ چلتا ھے۔ زمانہ طالب علمی میں جرمنی رھنے کا اتفاق ہوا اس دوران کئی سیاستدانوں کی مہمان نوازی کا موقع ملا میرے دوست شفیق چودھری جرمنی میں مسلم لیگ کے صدر تھے میاں نواز شریف جب جرمنی آئے تو انہیں سٹٹ گارٹ شہر میں مرسیڈیز گاڑیوں کا کارخانہ دیکھنے کا اشتیاق وھاں تک لے گیا، اسی طرح جرمن بیکری کے چند کیک انہیں بہت پسند تھے۔ جنرل مشرف کے دور کی بات ھے جب نواز شریف چند دنوں کے لئے جرمنی کے شہر ھائیڈل برگ آئے یاد رھے کہ ھائیڈل برگ یونیورسٹی کا شمار یورپ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ھے۔ علامہ اقبال بھی چند سمسٹر یہاں پڑھتے رھے، دنیا کے بہت سے نوبل پیس پرائز سائنسدان فلسفی اسی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ھیں۔ خیر شام کو شفیق چودھری جن کی دعوت پر میاں نوازشریف جرمنی آئے تھے نے میاں صاحب کے اعزاز میں ضیافت کا اھتمام کیا۔ نواز شریف مجھ سے جرمنی کی ترقی کا راز پوچھنے لگے تو میں نے اپنی رائے دی کہ جہاں جرمنی کی ترقی میں بسمارک کی قیادت مختلف قبائل کا متحد ھو کر مضبوط ریاست کی بنیاد رکھنا اور قوم پرستی کو پروان چڑھانا شامل ھے مگر سب سے اھم جزو اس کا تعلیمی نظام ھے۔ میں نے میاں صاحب کو تجویز دی کہ آپ کو جرمنی قیام کے دوران جرمنی کے اسکول اور ھائیڈل برگ یونیورسٹی کا دورہ کرنا چاھئے لیکن ان کے سیکرٹری نے انہیں یاد دلایا کہ کل انہیں ایک مشہور ترکی ریستوران میں لنچ کے لئے جانا ھے۔
جو قوم کتاب سے دور ہو جائے وہ ذھن سے نہیں بلکہ معدہ سے سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ وھاں بک اسڑیٹ کے بجائے فوڈ اسٹریٹ ہی قیام عمل میں آتی ہے۔ اس قوم میں بڑے خیالات جنم نہیں لے سکتے۔ وہ وسعت نظر سے محروم ہو جاتی ھے۔
آج برسوں بعد جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ نواز شریف بیکری رغبت سے گئے تو مجھے جرمنی کی وہ شام یاد آئی۔ میں پرویز رشید جیسے نظریاتی جمہوریت پسند شخص سے یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ نظریاتی نواز شریف کو اسلام آباد کی کسی مشہور کتابوں کی دکان لے کر جاتے لیکن میاں صاحب اور کتاب کا رشتہ اتنا مضبوط نہیں۔
قائداعظم سیاسی سوچ بچار اپنی لائیبریری میں کرتے اور فارغ اوقات میں مطالعہ بھی۔ کانگرس کے راھنما گاندھی نہرو مولانا آزاد بلند پایہ ادیب مفکر اور دانشور بھی تھے۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا مودودی نے قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کے عمل میں جنرل ایوب کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے مولانا کو جیل میں پابند سلاسل رکھ کر تفسیر لکھنے کی فرصت مہیا کی۔ سردار شیر باز مزاری ذوالفقار علی بھٹو دور میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے ان کی ذاتی لائیبریری کا شمار پاکستان کے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ھے، وہ اپنی کتاب میں لکھتے ھیں کہ ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات کراچی کی ایک مشہور کتابوں کی دوکان پر ہوئی۔
بھٹو بین الاقوامی سیاست ادب اور فلسفہ پر لکھی گئی کتابوں کے رسیا تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اسلام آباد کے مشہور بک اسٹور کا باقاعدگی سے چکر لگاتیں۔ بینظر بھٹو کی کلاس فیلو اور دوست وکٹوریہ سکوفیلڈ نے بتایا کہ بینظیر بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی میں فارغ اوقات میں مشہور دوکان بلیک ولز میں نئی کتابوں کی ورق گردانی میں گزارتیں۔ ایک قومی سطح کے سیاستدان کے لئے مطالعہ ضروری ہے۔ بین الاقوامی سیاست کی سمجھ بوجھ خارجہ پالیسی کے مختلف پہلوؤں پر نظر مطالعہ کے باعث ہی ممکن ھے۔ آج کے سیاسی راھنما عالمی امور پر اپنا نقطئہ نظر عالمی اخبارات میں مضامین لکھ کر کرتے ہیں۔ اس کے علاؤہ مختلف عالمی فورم پر انہیں عالمی راھنماوں میڈیا اور سول سوسائٹی کے سامنے سوال اور جواب کی شکل میں دینا پڑتا ھے۔ سوئٹز لینڈ میں سالانہ ڈیوس فورم اسی سلسلے کی کڑی ھے۔
میاں نوازشریف تو خیر مگر تبدیلی کی جماعت کے راھنما عمران خان کسی زمانے میں اپنی گفتگو میں کتابوں کا حوالہ دیا کرتے تھے، خود بھی صاحب کتاب ہیں مگر اب وہ بھی کتابوں سے دور دکھائی دیتے ہیں۔ جب سیاسی قائدین ہی کتاب سے دور یوں تو پھر ان کی ٹی وی سکرین پر نمائندگی کرنے والے پارٹی راھنما دشنام طرازی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے۔ اور جب میڈیا کی خبروں میں کتاب پر خبر کے بجائے بدلتے موسم میں مزے مزے کے پکوان کی خبریں ہوں گی تو قوم کا حال کیا ہوگا۔ آج طالب علم پروفیسر صحافی وکیل ڈاکٹر انجنیئر سب کتاب سے دور ہوچکے ہیں اور جو قوم کتاب سے دور ہو جائے وہ ذھن سے نہیں بلکہ معدہ سے سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ وھاں بک اسڑیٹ کے بجائے فوڈ اسٹریٹ ہی قیام عمل میں آتی ہے۔ اس قوم میں بڑے خیالات جنم نہیں لے سکتے۔ وہ وسعت نظر سے محروم ہو جاتی ھے اور پاکستان اس دن ترقی کرے گا جس دن کتابوں کی دوکان میں بیکری سے ذیادہ رش ہوگا اور اس کے سیاسی راھنما بھی کتابیں خریدتے اور کتاب پہ بات کرتے، پڑھتے دکھائی دیں گے۔
بشکریہ ..... طاہر ملک
Ubaid (03-12-2018)
wah..kia khoob sharing...
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks