پاکستان سپر لیگ کا آدھا سفر مکمل ہوگیا ہے کیونکہ اب تمام ہی ٹیمیں 5، 5 میچ کھیل چکی ہیں، اور شارجہ میں ہونے والے مقابلوں نے ثابت کردیا ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
پوائنٹس ٹیبل پر ملتان سلطانز، کراچی کنگز اور پشاور زلمی ابتدائی 3 پوزیشنوں پر قابض ہیں یعنی اب تک صورت حال توقعات اور اندازوں کے عین مطابق ہی جا رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ابھی نصف مرحلہ باقی ہے اور ٹی ٹوئنٹی جیسی تیز کرکٹ میں صورت حال کتنی تیزی سے پلٹا کھا سکتی ہے، اس کا اندازہ سب کو ہوگا۔
آئیے اب تک پیش کی گئی کارکردگی کی بنیاد پر پی ایس ایل 3 کی خوبصورت ٹرافی کے حصول کے لیے مدِمقابل تمام ہی امیدواروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کس نے اب تک خود کو اس کا حقدار ثابت کیا ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ
اِس سیزن کے ابتدائی 8 مقابلوں کے بعد پی ایس ایل کے میچز دبئی سے شارجہ منتقل ہوئے اور 5 دن تک خوب رونق لگی رہی۔ نہ صرف تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد نے میچ دیکھنے کے لیے میدان کا رخ کیا بلکہ اب تک سیزن کے بہترین میچز بھی ہمیں یہیں دیکھنے کو ملے۔
شارجہ مرحلے میں ہونے والا پہلا مقابلہ اسلام آباد اور کوئٹہ کے درمیان کھیلا گیا جہاں کیون پیٹرسن کے جلوے کے سامنے اسلام آباد کی ایک نہ چلی اور وہ ہار گیا۔ یہ شکست اسلام آباد کے لیے مایوس کن تھی۔ لیکن ابتدائی 3 میں سے 2 مقابلوں کی شکست کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا ہے ۔
لاہور قلندرز کے خلاف مقابلہ شاید ہی کوئی بھول پائے، جہاں مصباح الحق کی قیادت اور تمام کھلاڑیوں کی جاندار کارکردگی کے سبب اسلام آباد نے شکست کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ جب آخری 5 اوورز میں لاہور کی کامیابی یقینی تھی، تب اسلام آبادی فیلڈرز کے ناقابلِ یقین کیچز، جاندار فیلڈنگ اور پھر موقع پر ضرب لگا کر لاہور کو بدترین صورت حال تک پہنچا دینا ہمیشہ یاد رہے گا۔
معاملہ سپر اوور تک گیا کہ جہاں حتمی ضرب اسلام آباد نے ہی لگائی اور زبردست کامیابی حاصل کی۔ اگر کسی کو اس کامیابی کے بعد اسلام آباد پر ہلکا سا بھی شبہ تھا تو وہ اگلے ہی مقابلے میں ختم ہوگیا۔ جس کراچی کو پشاور اور کوئٹہ شکست نہ دے سکے اور جو ٹیم ابتدائی چاروں مقابلوں میں ناقابلِ شکست رہی، وہ اسلام آباد کے سامنے 154 رنز کے ہدف کا دفاع بھی نہ کرسکی اور 8 وکٹوں سے شکست کو منہ دیکھنا پڑا۔
گو کہ اسلام آباد اس وقت 5 میچوں میں 3 فتوحات اور 2 شکستوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے لیکن اس وقت صرف ایک کامیابی اسے ٹیبل پر مزید آگے لے جاسکتی ہے اور جس طرح اس نے اپنے آخری دونوں میچ جیتے ہیں، اس کے بعد لاہور قلندرز کے خلاف اگلے میچ میں کامیابی بھی مشکل دکھائی نہیں دے رہی۔ سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ٹیبل میں ٹاپ پر موجود ملتان اور کراچی کو اب تک صرف ایک، ایک شکست ہوئی ہے اور یہ انہیں ملی ہے اسلام آباد کے ہاتھوں!

ملتان سلطانز
پوائنٹس ٹیبل پر درمیان میں ہونے والی کھینچا تانی سے پہلے ذرا سب سے اوپر موجود ملتان سلطانز کی بات کرلیں۔ پی ایس ایل کی سب سے نئی اور مہنگی ترین ٹیم نے ابتدائی مقابلے سے ہی سب کو حیران کردیا، لیکن یہ حیرانی ان کے لیے بالکل بھی نہیں ہے جو ملتان کی ٹیم تیار ہوتی دیکھ رہے تھے۔
وسیم اکرم اور ٹام موڈی کو انتظامیہ میں شامل کرکے شعیب ملک جیسا کپتان مقرر کرنا اور پھر ایک کے بعد ایک اچھے نام کا انتخاب ظاہر کرتا تھا کہ ملتان اس بار کوئی کمال دکھائے گا اور ہم پہلے مقابلے سے لے کر اب تک اس ٹیم کے کمالات دیکھ رہے ہیں۔
دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کو ہرایا، پھر لاہور قلندرز کی ناکامیوں کے طویل سلسلے کی بنیاد رکھی، واحد شکست اسلام آباد کے ہاتھوں کھائی اور پھر کراچی سے دو، دو ہاتھ کرنے کا موقع بارش نے نہ دیا لیکن اپنے آخری مقابلے میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو 9 وکٹوں سے بھاری شکست دے کر بتا دیا کہ یہ کامیابیاں محض اتفاق نہیں بلکہ سخت محنت اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
یہ بات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ آدھا سیزن مکمل ہونے کے بعد سب سے زیادہ رنز بھی ملتان کے بلے باز کے ہیں اور سب سے زیادہ وکٹیں بھی اسی کے باؤلر کی ہیں۔ فارم میں موجود کمار سنگاکارا اب تک 3 نصف سنچریوں کی مدد سے 177 رنز بنا چکے ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی جیسے مختصر فارمیٹ میں 59 کی اوسط سے رنز بنانا کمال ہے، وہ بھی 123 کے اسٹرائیک ریٹ سے۔
یہ کارکردگی ظاہرکرتی ہے کہ وہ کس عمدہ فارم میں ہیں۔ پھر ڈرافٹ میں ملتان کا پہلا انتخاب عمران طاہر تھے، جو اب تک خوب چل رہے ہیں بلکہ ایک ہیٹ ٹرک بھی کرچکے ہیں۔ عمران طاہر صرف 5 میچوں میں 10 وکٹیں حاصل کرچکے ہیں، وہ بھی صرف 10 کے اوسط سے۔ اس سیزن میں 2 ہیٹ ٹرکس ہوئی ہیں اور دونوں ملتان کے باؤلرز نے کی ہیں، ایک عمران طاہر، دوسرے جنید خان۔
اس وقت 5 میچوں میں 3 کامیابیاں سمیٹنے اور ایک مقابلہ بارش کی نذر ہوجانے کی وجہ سے ملتان کی ٹیم 7 پوائنٹس رکھتی ہے اور نیٹ رن ریٹ کی وجہ سے کراچی کنگز پر برتری حاصل کرتے ہوئے سرفہرست ہے۔ اب ملتان کے اگلے 2 میچوں پی ایس ایل کی تاریخ کی 2 کامیاب ترین ٹیموں پشاور اور کوئٹہ کے خلاف ہیں اور ان میچوں میں کامیابی ہی پوائنٹس ٹیبل پر ملتان کے اصل مقام کا تعین کرے گی۔

کراچی کنگز
کراچی کنگز نے اس بار سب کو حیران کردیا ہے، شاید ملتان سے بھی زیادہ۔ پہلے 2 سیزنز میں بدترین حالات سے دوچار رہنے والے کنگز شاہد آفریدی کی آمد کے بعد عروج پر دکھائی دیتے ہیں۔ جس کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو وہ 2 سیزنز میں جان توڑ کوشش کے باوجود نہیں ہرا سکی، اس بار پہلے ہی ہلّے میں شکست دی۔
پھر دفاعی چیمپیئن پشاور زلمی کو بھی ہرا کر ثابت کیا کہ پہلی کامیابی قسمت کا کھیل نہیں بلکہ وہ منصوبہ بندی کا نتیجہ تھی۔ پھر روایتی حریف لاہور کو شکست دے کر تو سب پرغلبہ پالیا۔ کراچی کنگز، پوائنٹس ٹیبل میں سب سے اوپر؟ ایسا تو بہت ہی کم لوگوں نے سوچا ہوگا۔
بہرحال، جب ٹیمیں شارجہ پہنچیں تو یہاں کراچی کا پہلا مقابلہ ملتان سلطانز سے تھا جو بارش کی نذر ہوگیا۔ دونوں ٹیموں کو ایک، ایک پوائنٹ ملا۔ شاہد آفریدی زخمی تھے اور 2 میچوں کے درمیان 6 دن کا وقفہ آگیا، شاید یہی وجہ تھی کہ کراچی کو اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف اپنے آخری میچ میں بُری طرح شکست ہوئی۔ باؤلرز 154 رنز کے ہدف کا دفاع نہیں کر پائے جبکہ فیلڈنگ بھی مایوس کن رہی۔
لیکن یہ ناکامی ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ ایسی صورت حال میں جب شاہد آفریدی کی واپسی کا اگلے کئی دن تک کوئی امکان نہیں، یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ عماد وسیم ٹیم کو کیسے آگے لے جاتے ہیں؟ کوئٹہ کے خلاف اگلا مقابلہ بہت اہم ہوگا۔

پشاور زلمی
دفاعی چیمپیئن نے آغاز شکست سے کیا، پھر ابتدائی 3 میں سے 2 میچ ہارے لیکن کوئٹہ کے خلاف ایک کامیابی نے اسے آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ اب سب کی نظروں میں YellowStorm# یعنی ’پیلا طوفان‘ ہے۔ ڈیرن سیمی نے ایک ’زخمی شیر‘ کی طرح کوئٹہ سے فتح چھینی، اور سچ پوچھیے تو اس کارکردگی کو پی ایس ایل 3 کے بہترین لمحات میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔ پھر سیمی کی عدم موجودگی میں پشاور نے جس طرح لاہور کو 10 وکٹوں سے ہرایا، وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ زلمی اب اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں۔
اب دبئی پہنچ کر پشاور کا پہلا امتحان ہوگا ملتان کے خلاف، جو اس وقت ٹیبل پر نمبر ایک ہے اور یہی وہ ٹیم ہے جس نے افتتاحی مقابلے میں زلمی کو شکست دی تھی۔ یعنی پشاور کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنی پہلی شکست کا بدلہ بھی لے اور ثابت کرے کہ وہ اعزاز کا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کامیابی پشاور کو پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن پر پہنچا دے گی، اور درحقیقت وہ اس کے حقدار بھی ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پاکستان سپر لیگ کے ابتدائی 2 سیزنز میں سب سے کامیاب ٹیم رہی ہے۔ دونوں مرتبہ اس نے فائنل کھیلا، اگرچہ کامیابی تو حاصل نہیں ہوسکی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ پی ایس ایل کی مضبوط ترین ٹیموں میں سے ایک رہی ہے، لیکن اس مرتبہ پوائنٹس ٹیبل پر 6 ٹیموں میں پانچویں نمبر پر ہے۔ یعنی اگر حالات تبدیل نہ ہوئے تو شاید یہ ٹیم کوالیفائرز تک بھی رسائی حاصل نہ کرسکے۔
دراصل اس بار کوئٹہ کا آغاز ہی بُرا رہا۔ پہلے ہی میچ میں کراچی کنگز نے اسے شکست دی۔ ابھی اسلام آباد کے خلاف کامیابی سے بحال ہونے والا سانس بحال ہی نہیں ہوا تھا کہ پشاور زلمی نے اس کے چودہ طبق روشن کردیے۔ ڈیرن سیمی کی ’خاص اننگز‘ نے کوئٹہ کو ایک یقینی اور حوصلوں کو بلند کرنے والی کامیابی سے محروم کردیا۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ ملتان کے خلاف پوری ہوگئی۔ سلطانوں کی طوفانی باؤلنگ اور عمران طاہر کی ہیٹ ٹرک کے سامنے کوئٹہ کی ٹیم چاروں خانے چت ہوئی۔ اب عالم یہ ہے کہ 5 میچوں میں صرف 2 کامیابیوں اور 3 شکستوں کے ساتھ اس کے صرف 4 پوائنٹس ہیں۔
پھر بھی اگر کوئٹہ کی صلاحیتوں کو دیکھا جائے تو وہ اب بھی واپس آنے کی پوری پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ سرفراز احمد، کیون پیٹرسن، شین واٹسن، ریلی روسو اور محمد نواز اس کی آئندہ کامیابیوں کے لیے بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اگر گلیڈی ایٹرز ملتان کے خلاف اپنا اگلا مقابلہ جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ کافی حوصلہ افزاء کامیابی ہوگی اور ٹورنامنٹ میں واپسی کا آغاز بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

لاہور قلندرز
برینڈن میک کولم کا لاہور قلندرز کو ایک مرتبہ پھر ٹیبل پر سب سے نیچے دیکھنا یقیناً ایک مایوس کن منظر ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ شکست ان کا مقدّر بن گئی ہے کیونکہ اب تک کوئی بھی منصوبہ بندی کام نہیں کر رہا۔ پہلے ہی مقابلے میں ملتان سلطانز کے خلاف 180 رنز کے تعاقب میں بہترین پوزیشن میں ہونے کے باوجود محض 4 رنز پر آخری 7 وکٹیں گنوانے کی وجہ سے یقین فتح شکست میں بدل گئی۔
کوئٹہ کے خلاف پانچویں اوور میں اسکور صرف ایک وکٹ پر 60 رنز تھا لیکن 20 اوورز میں بنائے صرف 119 رنز۔ اس کا نتیجہ شکست کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ روایتی حریف کراچی کے ہاتھوں 27 رنز سے شکست کھائی۔ یہاں بھی 160 رنز کے تعاقب میں حالات اتنے خراب نہیں تھے۔ 7 اوورز میں 72 رنز، وہ بھی صرف 2 وکٹوں پر لیکن پوری ٹیم آؤٹ ہوئی صرف 132 رنز پر۔ یعنی صرف 60 رنز کے اضافے پر 8 وکٹیں گئیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف تو وہ کامیابی کے بہت قریب پہنچ گئے یہاں تک کہ اسکور بھی برابر کردیا لیکن سپر اوور میں 15 رنز کا دفاع بھی نہ کر پائے اور آخری گیند پر چھکا کھا کر شکست پائی۔
ان تمام مقابلوں سے اندازہ لگائیں کہ لاہور کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ان کا اصل مسئلہ ہے مڈل آرڈر کی بارہا ناکامی۔ عمر اکمل چل نہیں رہے، دوسرا کوئی بیٹسمین ٹک نہیں رہا تو آخر کب تک فخر زمان اور برینڈن میک کولم آغاز دیتے رہیں گے؟
اب عالم یہ ہے کہ حوصلے پست ہیں، کندھے جھکے ہوئے ہیں، چہرے پر مایوسی طاری ہے لیکن وقت اب بھی باقی ہے۔ اگر دبئی میں اگلے مقابلے میں اسلام آباد سے بدلہ لے پائیں اور آگے بھی فتوحات حاصل کریں تو کوئی سبیل بن سکتی ہے لیکن اصل زور ہے فتوحات پر، کیونکہ اب قلندر شکست کے متحمل نہیں ہوسکتے۔