میں خاموشی سے اٹھا اور گھر آگیا
مجھے امید تھی کہ شاداں اس پرائیویٹ میٹنگ کو راز رکھے گی اور تنہائ میں میری بات پر ضرور غور کرے گی- آخر ایک جوان عورت کب تک بیوگی کا بوجھ اٹھا سکتی ہے
لیکن جو کچھ ہوا وہ میرے وہم و گماں سے بھی آگے تھا
شام تک بچّے بچّے کی زبان پر ایک ہی کہانی تھی
معصوم بیوہ اور دل.پھینک مولوی کی کہانی
جاھلوں نے کہا بڑا مولوی بنا پھرتا ہے جو بیواؤں سے عشق لڑاتا ہے – کوئ کہتا اجی دیکھو ذات کا مولوی اور بیواؤں سے جپّھے … توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے- مخالف فرقے والوں نے تو پورا جلسہ ہی کر ڈالا- شعلہ بیان خطیبوں نے مجھے معاف رکھا البتہ میرے مسلک کو دھو دھو کر نچوڑا اور سکھا سکھا کر دھویا- ہم مسلکوں نے اسے “اسلام کے خلاف گہری سازش” قرار دیکر “اعلانِ جہاد” کر دیا- حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ “چکیاں پولیس ” کو گاؤں میں باقاعدہ پُلِس چوکی قائم کرنا پڑی-
دوسری طرف محلے کی خواتین نے میری بیوی کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا- زوجہ بھی بھڑک اٹھی کہ مانا “گرمیء شوق” دستارِ فضیلت سے اونچی ہو گئ ہے مگر بیوہ کو تو معاف کردے
میں نے کہا ارادہء عقد ہی کیا ہے ، ارادہ قتل تو نہیں
اگلے ہی روز وہ نیک بخت یہ کہتی ہوئ میکے سدھاری کہ میں نے تجھے زندگی کا ہر سُکھ معاف کیا ، تیری نیّت شروع سے ہی خراب تھی- تیرے خطبات اور وعظ و نصیحت کے پیچھے “شاداں” کا “خفیہ ہاتھ” تھا- روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لونگی ، مگر تجھ جیسے ٹھرک باز کے ساتھ ایک دن نہ گزاروں گی
میری تو دنیا ہی ویران ہو گئ- گھر میں تنہائ کاٹتی اور باہر لوگ- آخر ایک دن اس جاھل قوم کو سلام کر کے گاؤں سے ستر کوس دور اس باغ میں چلا آیا- مالٹوں کی زیارت سے طبیعت شاداں و فرحاں ہوئ- ٹھیکیدار اچھا آدمی ہے – خدا اجر دے ، بنا کسی منّت سماجت کے مجھے مالی رکھ لیا
اب یہیں شب باشی کرتا ہوں- دل بہلانے کو یہ مرغ پال رکھا ہے- رات کا کھانا باغ کا مالک دے جاتا ہے- لوگوں کے ہوش تو اڑا چکا ، اب صبح شام طوطے اڑاتا ہوں- اچھا اب میری صدا کا وقت ہوا چاھتا ہے —- ذرا کانوں میں انگلیاں ڈال لو
دفعتاً وہ شخص گلا پھاڑ کر چلایا —مافی مافی مافی — زوجہ ایک ہی کافی
اور باغ سے سارے طوطے اڑ گئے
حاتم نے موبائل ریکارڈنگ آف کرتے ہوئے کہا
” اے پیرِ مرد- تیری داستانِ پُر الم سُن کر بمشکل ہنسی روکی ہے- افسوس کہ تو نے عرب کا سرمہ سرگودھا میں بیچنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے معاشرے کی آنکھیں باہر آ گئیں- جس شخص کو “مالٹے اور کھجور” کا طبیعاتی فرق معلوم نہ ہو اسے مولوی کیا مالی بھی نہیں ہونا چاھئے
اے شخص سُن کہ سرزمینِ شاد باد پر تین طرح کے مولوی پائے جاتے ہیں- ایک وہ پیٹ پرست جو مُردوں کے نام پر زندوں کا رزق ڈکار رہے ہیں- معاشرہ جس حال پہ راضی ہو ، یہ مذھب کو اسی رنگ میں ڈھال کر “مال” سے غرض رکھتے ہیں- انہیں عوامی مولوی” کہا جاتا ہے
دوسرے وہ بنیاد پرست جو معاشرے کا بازو مروڑ کر اسے سیدھا کرنے کی کوشش فرما رہے ہیں- اپنے گرد تعصب کا دائرہ کھینچ کر چوکڑی مار کے بیٹھ جاتے ہیں- اگر کوئ بھولا بھٹکا “کافر” اس دائرے میں جھانکنے کی بھی کوشش کرے تو یہ اسے “گھسّن” مار مار کر بھگاتے ہیں- انہیں “ضِدّی مولوی” کہا جاتا ہے
تیسرے وہ بندگانِ خُدا جو اوروں کےلئے خود کو اچھی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں- معاشرہ انہیں دیکھ کر خود بخود رنگ پکڑتا ہے- بڑے بڑے گنہگار ان کی محفل میں آ کر تائب ہو جاتے ہیں- انہیں “صالحین” کہا جاتا ہے ، مگر ایسے صالحین یہاں خال خال ہی ملتے ہیں اور یہی ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کم نصیبی ہے
اس کے بعد حاتم نے جیب سے شہزادی حسن بانو لاٹری فارم نکالا- مولوی مقصود کا اس پر انگوٹھا لگوایا- اس کے شناختی کارڈ کی تین عدد کاپیاں ہمراہ پاسپورٹ سائز فوٹو لیکر ، پہلی فلائیٹ سے ہی اسلام آباد روانہ ہو گیا
Bookmarks