SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 2 of 2

    Thread: اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقائ&

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,412
      Threads
      12102
      Thanks
      8,639
      Thanked 6,948 Times in 6,474 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقائ&

      اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقائد

      نعیم احمد بلوچ

      اس تحریر کا مقصد اہل تشییع کے فکرکو دلائل فراہم کرنا ہے نہ ان پر تنقید کرنا ۔ یہ محض اس لیے لکھی گئی ہے قارئین کے سامنے ان کی بات ،جیسی کہ وہ ہے ، بغیر کسی تعصب و تبصرے کے آجائے ۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ جب تک آپ کسی فکر یاعقیدے کو اس کے نقطہ نظر سے نہیں جان لیتے اس کے حسن وقبح ، اس کے میرٹ ڈی میرٹ کو انصاف سے پرکھ نہیں جا سکتے ۔ مکرر عرض ہے کہ یہاں اہل تشیع کے نقطہ نظر کو درست یا غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ محض اس کو جاننا ہے ۔
      اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقاید یہ ہیں :
      ۔1۔ توحید ، 2۔عدل، 3۔رسالت، 4۔امامت ، 5۔معاد
      اس میں توحید ورسالت اور معاد تو وہی ہیں جو اہل سنت کے ہاں ہے ۔ رسالت کی اہم شرط ختم نبوت کو بھی وہ اسی طرح مانتے ہیں جس طرح اہل سنت ۔یاد رہے معاد سے مراد آخرت ہے۔ ان تین عقائد کی حد تک کوئی بنیادی اختلاف نہیں البتہ ان کی توضیحات وتفصیلات میں اختلاف ہو سکتے ہیں ۔لیکن اس نوعیت کے اختلافات اہل سنت کے مختلف فرقوں میں بھی ہیں اور اہل تشیع کے فرقوں میں بھی۔
      عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عدل پر قائم کی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ قیامت تک اسے عدل پر قائم رکھے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اہل ایمان کا حکمران عادل نہ ہو ۔ اسی لیے رسول اپنے بعد امام عادل کا تقرر کرکے جاتا ہے اور اس کے بعد وہ امام اگلے امام کا تقرر کرتا ہے ۔ اسے امامت کہا جاتا ہے ۔
      امامت کا تصور یہ ہے کہ رسول اپنے بعد اپنے نائب کو مقرر کر کے جاتے ہیں ۔ اور یہ نائب صرف حضور ﷺ ہی نے نہیں مقرر نہیں کیا بلکہ تمام رسولوں نے بھی ایسا کیا۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ ؑ وعیسٰی ؑ کی مثال دی جاتی ہے ۔ ان کے نزدیک جس طرح رسول کا انتخاب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اسی طرح اللہ کے حکم سے رسول اپنے جانشین یا نائب کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ (یاد رہے کہ خلیفہ کا مطلب بھی نائب اور جانشین ہی کا ہوتا ہے ۔ )اور جس طرح رسول معصوم عن الخطاء ہوتا ہے ، اسی طرح یہ خلیفہ جسے اہل تشیع ’امام‘ کہتے ہیں وہ بھی معصوم ہوتا ہے ۔ وہ نہ صرف فرمانروا ہوتا ہے بلکہ قرآن و حدیث کی جو تشریح کر دے، جو اجتہاد فرمائے، وہ بھی حتمی ہوتاہے اور اس پر عمل کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح رسول کی بات پر عمل کرنا۔البتہ وہ صریح نص(قرآن حدیث ) کے خلاف حکم نہیں دے سکتا ۔پھر یہ امام اپنے بعد کے امام کو بھی نامزد کرتا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو امامت کے منصب پر فائز کیا ،( ان کے نزدیک کیونکہ ابوبکر و عمر و عثمان رضوان اللہ اجمعین سمیت اکثر صحابہ نے اس وصیت کو نہیں مانا اس لیے وہ ان تمام صحابہؓ کو درست نہیں سمجھتے اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رائے رکھتے ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک ایسا بالکل بھی نہیں ، وہ اہل تشیع کی طرف سے بیان کی جانے والی مشہور حدیث ’غدیر خم ‘ کو اگر چہ بہت سے اہل سنت مانتے ہیں لیکن اس کے فہم اور معنی کے تعین میں شدید اختلاف رکھتے ہیں ۔ ) پھرحضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ کو ، انھوں نے حضرت حسینؓ کو ، انھوں نے زین العابدین کو، انھوں نے محمد بن علی الباقر کو ، پھرحضرت جعفر صادق کو امامت پر فائز کیا ۔انھوں نے اگلے امام کی وصیت نہیں کی ۔



      پوچھنے پرانھوں نے ابو مسلم خراسانی کو یہ فرمایا کہ نہ تم ا س قابل ہو کہ تمھیں بتا یا جائے اور نہ زمانہ ان کی آمد کے قابل ہے۔ چنانچہ اس کے بعدموسیٰ کاظم، پھر علی الرضا ، پھر محمد النقی، پھر علی الہادی ، پھر الحسن الذکی العسکری اورپھرمحمد المہدی۔مگر وہ ابھی چند ماہ یا چند برس کے تھے کہ حالات کی وجہ سے انھیں روپوش ہونا پڑا اور وہ سامرّہ کے غار میں چلے گئے ۔( 15 شعبان 255 ھ)وہاں وہ اس وقت تک غائب رہیں گے جب تک حالات سازگار نہیں ہوتے ۔ انھی کوامام غائب یا مہدی کہتے ہیں، جن کا انتظار کیا جاتا ہے ۔وہ مناسب وقت پر غار سے باہر تشریف لائیں گے اور آکر اہل بیت سے ہونے والی تمام زیادتیوں کا ازالہ کریں گے اور دنیا کو قیامت تک کے لیے عدل پر قائم کر دیں گے ۔ (اہل سنت کی اکثریت کے ہاں ’امام مہدی‘ کا جو تصور ہے وہ اس سے مختلف ہے، اہل سنت میں جو اس کو نہیں مانتے ، وہ یہی کہتے ہیں کہ یہ اہل تشیع ہی سے لیا گیا عقیدہ ہے )اہل تشیع کے ہاں جو ان تمام بارہ ائمہ کو مانتے ہیں انھیں ’’اثنا عشری ‘‘ کہتے ہیں ۔ اور انھی کی اہل تشیع میں اکثریت ہے ۔ ان کے بعض فرقے جعفر صادق کے بعدآنے والے ائمہ کے تعین میں اختلاف کرتے ہیں اور اسی سے اہل تشیع کے مختلف فرقے وجود میں آئے ۔ جبکہ’ زیدیہ‘ صرف امام زین العابدین تک کے قائل ہیں۔ ( ان کی تفصیل نیچے نقشے میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ )
      عقائد کے بعد ارکان اسلام کی طرف آتے ہیں ۔ ان کے ہاں یہ بھی اہل سنت کی طرح پانچ ہی ہیں لیکن ان میں اختلاف ہے ۔ ان کے نزدیک یہ پانچ ارکان یہ ہیں : نماز ، روزہ ، زکوٰۃ،خمس اور جہاد ۔ نمازیں پانچ ہیں ۔اور ان کی تعداد بھی وہی ہے جو اہل سنت کے ہاں ہے ۔ البتہ وضو اور نماز کی ادائیگی میں بعض اہم اختلافات ہیں ۔ یہی معاملہ روزے اور حج کا ہے ۔ ان میں اختلافات ہونے باوجود اہل سنت اور اہل تشیع انھیں ایک ہی جگہ پر ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ البتہ زکوٰۃ میں بعض بنیادی اختلافات ہیں ۔وہ زکوٰۃ کو صرف نو چیزوں میں دینی واجب سمجھتے ہیں ۔ خمس سے مراد ہے آمدنی کا پانچواں حصہ ۔ یہ ہر’ مومن‘ پرامام کو دینا فرض ہے ۔اس لیے ائمہ یعنی خالص ا ہل بیت کا زکوٰۃ کے بجائے خمس میں حصہ مانا جاتا ہے ۔ جہاد کو وہ اہل سنت کے برعکس ایک مستقل رکن اسلام مانتے ہیں البتہ ان کے نزدیک پرائیویٹ جہاد یا غیر مقاتلین اور غیر مسلح افراد سے لڑنا ناجائز سمجھتے ہیں ۔ (البتہ ان کا امام اس شرط کو کبھی بھی ختم کر سکتا ہے۔ )
      ان کے ہاں ماخذ دین یہ ہیں: قرآن ، حدیث ، عقل اور اجماع۔ حدیث ان کے نزد یک صرف اہل بیت اور خلافت علیؓ کے قائل صحابہ ہی کی معتبر سمجھی جاتی ہے ۔ ائمہ کی حدیث کو بھی وہ رسول کی حدیث کا درجہ دیتے ہیں ۔
      عاشورہ پر کیے جانے والے اعمال اور جلوسوں کو و ہ تولیٰ اور تبریٰ کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ یہ نصرت دین اورجہاد کا حصہ ہیں ۔ ان کے نزدیک امام غائب کی آمد تک اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہیے ۔ یہ اگرچہ ایک اجتہادی عمل ہے لیکن عملی طور پر اسے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ عقیدہ عدل ، امامت اور جہاد کا لازمی تقاضا ہے ۔ ان کے ہاں اس کی وہی حیثیت ہے جو حج کی ہے ۔ حج جس طرح ایک علامتی عبادت ہے، یعنی اہل اسلام جس طرح حج کے لباس(احرام ) کوموت ، طواف و تلبیہ کو اللہ کے ساتھ تعلق، قیام عرفات ا ورمزدلفہ وغیرہ کو آخرت اور شیطان کو کنکریاں مارنے کو جہاد کی علامت سمجھتے ہیں، اہل تشیع اسی طرح ماتم وتعزیہ وغیرہ کو اس بات کا علامتی اظہار اور عزم وارادہ کی پختگی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں ہے کہ اہل بیت کی جدوجہد کو یاد رکھنا ہے، اس دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور امام غائب کی آمد تک شیعہ تحریک کو پوری قوت کے ساتھ جاری وساری رکھنا ہے ۔ البتہ ان جلوسوں میں ہونے والے اعمال اور طریقہ کار میں افراط وتفریط کو ان کے سنجیدہ طبقے بھی قابل اصلاح سمجھتے ہیں ۔
      یہ ہے انتہائی اختصار کے ساتھ اہل تشیع کے بنیادی عقائد و عبادات کا تعارف ۔



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following 2 Users Say Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (01-02-2018),Ubaid (01-02-2018)

    3. #2
      Vip www.urdutehzeb.com/public_html Moona's Avatar
      Join Date
      Feb 2016
      Location
      Lahore , Pakistan
      Posts
      6,209
      Threads
      0
      Thanks
      7,147
      Thanked 4,115 Times in 4,007 Posts
      Mentioned
      652 Post(s)
      Tagged
      176 Thread(s)
      Rep Power
      15

      Re: اہل تشیع کے نزدیک دین اسلام کے بنیادی عقائ

      Sorry no comments


      Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
      Nikita Khurshchev

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •