راکٹ بنانے والا رابرٹ ہچنگز گوڈارڈ
یونس حسنی
انسان آج چاند پر پہنچ گیا ہے۔ یہ انسان کی صدیوں پرانی خواہش تھی۔ شاید انسان اس خواہش کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔آج بھی معصوم بچے چاند کو دیکھتے اور ہمکتے ہیں۔ جیسے وہ اسے گود میں بھر لیں گے۔ نہ جانے کب سے دادیاں اپنے پوتوں کو چاند کی بڑھیا کی کہانیاں سنا رہی ہیں۔ چاند سے انسانوں کی اس غیر معمولی دل چسپی کے باوجود گزشتہ صدی کے نصف تک چاند پر جانے کا خواب دیکھنے والا احمق سمجھا جاتا تھا۔ ایسا ہی ایک احمق رابرٹ ہچنگز کوڈارڈتھا۔ رابرٹ امریکا کی ریاست میسا چوسٹس میں 1882ء میں پیدا ہوا۔ 1911ء میں اس نے کلارک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور پرنسٹن میں پڑھانے لگا لیکن 1914ء میں وہ واپس آ گیا اور اس نے راکٹ سازی کے لیے تجربے شروع کیے۔ راکٹ ہی وہ ذریعہ تھا جس کے سہارے انسان چاند تک پہنچنے میں کام یاب ہو سکا۔ رابرٹ کا خیال تھا کہ اگر تیزرفتار اور بلندی تک پہنچنے والے راکٹ تیار ہو جائیں تو چاند تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ وہ راکٹ بنانے کے لیے مختلف تجربات میں مصروف رہتا اور آسمانی فضا سے دل چسپی لیا کرتا تھا۔ اس کی ان مصروفیات کی وجہ سے لوگ اسے سنکی سمجھتے اور اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن وہ سب سے بے پروا اپنے کام میں لگا رہتا تھا۔ 1919ء میں اس نے 69صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب شائع کی جس میں اس نے بتایا تھاکہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ ٹھیک اسی زمانے میں روسی سائنس دان زیانکووسکی نے بھی اسی قسم کے چند مضامین لکھے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ بالکل ابتدائی زمانے سے خلائی پرواز کے معاملے میں امریکا اور روس ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے۔ لیکن اولیت کا سہرا امریکا کے سر رہا۔ 1923ء میں رابرٹ نے راکٹ سازی کا ابتدا تجربہ کیا اور آخرکار 16 مارچ 1926ء کو انسانی تاریخ کا پہلا راکٹ فضا میں بلند ہوا۔ یہ چار فٹ لمبا اور چھ انچ قطر کا ایک بانسری نما راکٹ تھا۔ اس میں گیسولین اور رقیق آکسیجن کا آمیزہ بطور ایندھن کے استعمال کیا گیا تھا۔ رابرٹ کی بیوی نے اس تجربے کے موقع پر اس کی تصویر کھینچی تھی۔ وہ راکٹ چھوڑے جانے سے قبل راکٹ کے پاس کھڑاہوا دکھایا گیا تھا۔ جیسے ہی گیسولین آکسیجن سے ملی دھماکا ہوا اور راکٹ فضا میں بلند ہوا۔ یہ پہلا راکٹ تھا۔ یہ فضا میں دو سو فٹ کی بلندی تک گیا اور اس کی رفتار ساٹھ میل فی گھنٹہ تھی۔ یہ ان انسان بردار دیوقامت راکٹوں کا ننھا منا باوا آدم تھا جو بعد میں چھوڑے گئے اور انسان کو چاند پر لے گئے۔ ہر بڑے کام کی ابتدا بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ رائٹ برادران کا پہلا جہاز بھی تو بچوں کا کھلونا ہی تھا۔ رابرٹ ایک غریب آدمی تھا۔ اس کے پاس تجربات کے لیے پیسہ نہیں تھا۔ لیکن سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن سے چند ہزار ڈالر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے کوشش جاری رکھی۔ جولائی میں اس نے دوسرا تجربہ کیا۔ اس بار راکٹ کی رفتار بھی تیز تھی اور وہ زیادہ بلندی تک پہنچ سکا۔ لیکن یہ تجربہ اسے بہت مہنگا پڑا۔ پولیس نے اسے دھر لیا اور ہدایت کی کہ آئندہ وہ اس قسم کے دھماکے نہ کرے۔ پولیس اسے ایک سنکی شخص خیال کررہی تھی۔ اس کے بارے میں عام رائے بھی یہی تھی۔ رابرٹ بڑا پریشان اور رنجیدہ رہنے لگا۔ اس موقع پرا س کا ایک سائنس دان دوست ڈینئل اس کے کام آیا۔ اس نے اسے کچھ رقم فراہم کی۔ اس رقم سے اس نے نیومیکسیکومیں ایک سنسان جگہ پر اپنی تجربہ گاہ قائم کر لی اور کسی قدر اطمینان سے اپنے کام میں لگ گیا۔ اب اس نے زیادہ بڑے تیز رفتار اور زیادہ بلندی تک پہنچنے والے راکٹ بنانا شروع کیے۔ اس نے راکٹوں میں بہت سی اصلاحیں بھی کیں۔ 1929ء میں جو راکٹ چھوڑا گیا تھا اس میں رابرٹ نے ایک ہوا پیما، ایک تھرمامیٹر اور تصویریں اتارنے کے لیے ایک کیمرہ بھی لگا یا تھا۔ گویا یہ پہلا راکٹ تھا جو آلات سے لیس تھا۔ بعدکے تجربات میں اس نے اصلاحیں کیں جو آج بھی راکٹ سازی میں انتہائی مفید خیال کی جاتی ہیں۔ اب اس کے راکٹ کی رفتار 550 میل فی گھنٹہ پہنچ گئی تھی ۔ وہ ڈیڑھ میل کی بلندی تک جا سکتے تھے۔ اس نے ایسا طریقہ بھی ایجاد کیا جس کی مدد سے راکٹ کو پرواز کے دوران قابو بھی رکھا جا سکے اور خواہش کے مطابق اس کی سمت کو موڑا جاسکے۔ اسی نے کئی مرحلوں والا راکٹ بھی تیار کیا تھا۔ گویا آج کے راکٹ کے لیے ابتدائی نمونہ اسی شخص نے فراہم کیا تھا۔ لیکن اس کی بدقسمتی تھی کہ حکومت نے اس کے کاموں سے کبھی دل چسپی نہیں لی اور وہ تمام زندگی گمنامی میں گزار کر مرا۔ البتہ دوسری جنگ عظیم کے دوران حکومت نے اس کی طرف توجہ دی اور اسے ایسے راکٹ تیار کرنے کے لیے روپیہ فراہم کیا جو بحریہ کے جہازوں سے ہوائی جہازوں کی پرواز کے لیے مفید ہو سکیں۔ ٹھیک اسی زمانے میں رابرٹ کے اصولوں کو سامنے رکھ کر جرمنی کے سائنس دانوں نے بڑے راکٹ بنانے شروع کیے۔ اگر یہ راکٹ وقت پر بنا لیے گئے ہوتے تو دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی فتح کم و بیش یقینی تھی۔ اسی بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رابرٹ نے راکٹ سازی کو کس حد تک ترقی دے لی تھی۔ یہ کام اس نے تنہا کیا تھا، اس کے لیے اسے حکومت نے کوئی مدد نہیں دی ۔ اگست 1945ء میں جب اس کا انتقال ہوا تو خلائی دور شروع نہیں ہوا تھا۔ اس نے خود اپنی عظمت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ۔ آج اس کی ایجاد نے انسان کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔ ٭٭٭