علامہ محمد اقبالؒ کی شہرۂ آفاق کتاب تجدید فکریات اسلام کا ابتدائیہ
قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے خلقی طورپر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس اجنبی کائنات کو ایک حیاتی عمل کے طورپر قبول کرلیں۔ یہ عمل، وہ خاص طرز کا باطنی تجربہ ہے، جس پر بالآخر مذہبی ایمان کادارومدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنالی ہے ایسی عادت جسے خود اسلام نے اپنی ثقافتی زندگی کے کم ازکم آغاز میں خود اپنے ہاں پروان چڑھایا تھا۔ اس عادت کی بنا پر وہ اس تجربے کے حصول کا کم ہی اہل رہ گیا ہے جسے وہ اس لیے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس میں التباس کی گنجائش رہتی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے، مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پاسکیں۔ وہ انہی طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لیے وضع کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطہ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطہ نظر سے مختلف تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ ’’تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق وبعثت کی طرح ہے‘‘۔ حیاتیاتی وحدت کا زندہ تجربہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے آج ایسے منہاج کا تقاضا کرتا ہے جو موجودہ دور کے ٹھوس ذہن کے لیے عضویاتی طورپر کم شدت رکھتا ہو مگر نفسیاتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو۔ اس طرح کے منہاج کی عدم موجودگی میں مذہبی علم کی سائنسی صورت کا مطالبہ ایک قدرتی امر ہے۔ ان خطبات میں جومدارس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے اورمدارس، حیدرآباد اورعلی گڑھ میں پڑھے گئے، میں نے کوشش کی ہے کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اورمختلف انسانی علوم میں جدید ترین تحقیقات کومدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی مذہبی فکر کی تشکیل نو کروں تاکہ میں _جزوی طورپر ہی سہی_ اس مطالبے کو پوراکرسکوں۔ اس طرح کے کام کے لیے موجودہ وقت نہایت موزوں اور مناسب ہے۔ کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پرتنقید شروع کردی ہے۔اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت، جسے ابتدا میں اس نے ضروری سمجھا تھا، تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اورسائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم وگمان بھی نہیں ۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے افق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات، ان خطبات میں پیش کیے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوں جوآئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے ارتقاء پر بڑی احتیاط سے نگاہ رکھیں اوراس کی جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں۔ (مترجم: ڈاکٹر عشرت وحید)
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Awesome
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks