Dr Danish (11-02-2017)
اختیارات ایک ادیب کے
دلاور عسکری
کہنے کو آج کل ہمارے معاشرے میں بے چارے ادیب کو بالکل ہی بے اختیار اور غیر اہم سمجھا جاتا ہے کیونکہ فی زمانہ ایک ملکی سربراہ سے لے کر ایک کانسٹیبل اور پٹواری تک کو ایسے ایسے اختیارات حاصل ہیں کہ بڑے سے بڑے لوگ بھی ان کی ہر جائز و ناجائز خواہش کے آگے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح کلرک کو بادشاہ جیسے خطاب سے یاد کرتے ہوئے اس کے منصبی اختیارات کا پل بھر میں اندازہ ہو جاتا ہے سکول ٹیچر اور کالج کے پروفیسر صاحبان بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کافی اختیارات کے حامل ہوتے ہیں۔ حتی کہ نجی اداروں میں ڈائریکٹرز منیجر اور اکائونٹنٹ صاحبان بھی ہزاروں کارکنوں کو بھرتی اور فارغ کرنے کے لامحدود اختیار رکھتے ہیں۔ اسی طرح کوئی بھی دوکاندار خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنی اشیاء کو کم یا زیادہ منافع پر فروخت کرنے کا اختیار رکھتا ہے نیز اس کا جی چاہے تو وہ کسی کو نقد اور کسی کو ادھار سودا اٹھوا دے۔ کوئی اس کی ذاتی پسند و ناپسند کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ تاہم معاشرے کے ان سب افراد کے مقابلے میں ایک ادیب کو قطعی بے اختیار اور غیر اہم سمجھ لینا بھی کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ میری رائے کے مطابق ایک ادیب کو بھی بے پناہ اختیارات حاصل ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی ادیب اپنے اختیارات کا استعمال کلی یا جزوی طور پر یا بالکل ہی نہ کرے۔ یہ بات اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔ ایک ادیب کو سب سے پہلا اختیار تو یہ حاصل ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے موضوعات کے انتخاب میں مکمل طور پر آزاد ہوتا ہے چنانچہ کچھ ادیب تاریخی دینی اور سماجی موصوعات پر قلم اٹھاتے ہیں تو کچھ رومانی اور جذباتی موصوعات پر خامہ فرسائی فرماتے ہیں کچھ ادیب ڈرامہ نگاری کچھ افسانہ نگاری تو کچھ تنقید نگاری یا انشائیہ نگاری پسند کرتے ہیں چنانچہ اگر کوئی دوسرا شخص کسی لکھاری کو اپنے پسندیدہ موضوع سے ہٹ کر لکھنے پر مجبور کرے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ معروف افسانہ نگار مرحوم سعادت حسن منٹو پر کئی بار مقدمات چلے مگر وہ پھر بھی اپنی روش پر ڈٹے رہے۔ ایک ادیب کے پاس دوسرا اختیار یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے افسانوں اور ناولوں کے نام بھی اپنی پسند سے مقرر کرتا ہے اور اپنے کرداروں سے اپنی مرضی کے مطابق کام بھی لیتا ہے نیز ان کرداروں کے ناموں کے انتخاب میں بھی وہ بالکل آزاد ہوتا ہے۔ چنانچہ اگر اسے کوئی دوسرا آدمی مشورہ دے کہ وہ اپنے کسی کردار کا نام زید کی بجائے بکر رکھ دے تو اس ادیب کو یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ یہ مشورہ قبول کرے یارد کر دے۔ اسی طرح سنا ہے کہ ایک فلم کے کہانی نویس نے جب اپنے ایک اہم کردار کا نام اپنی منشا کے مطابق پیش کیا تو مذکورہ فلم کے ہدایتکار اور فلم ساز دونوں نے اس نام پر اعتراض کرتے ہوئے کہانی نویس کو تبدیلی کے لیے کہا۔ مگرکہانی نویس نے اپنا پسندیدہ نام بدلنے سے انکار کر دیا۔ جب اصرار بڑھا تو کہانی نویس نے معاہدہ منسوخ کرکے اپنی کہانی کسی دوسرے فلم ساز کو دے دی بعد میں معلوم ہوا کہ پہلی فلم کے ہدایتکار اور فلم ساز کو کہانی نویس کے پسندیدہ نام سے اس لیے چڑ تھی کہ اس نام کے کسی شخص کے تلخ رویہ کی بناء پر انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے مذکورہ نام سے نفرت پیدا ہو گئی تھی چنانچہ وہ کسی طور بھی اس نام کے کسی کردار کو اپنی فلم میں کاسٹ کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ جبکہ کہانی نویس کے ذہن میں اس نام سے متعلق کئی حسین یادیں وابستہ تھیں جنہیں وہ ہر حالت میں قائم رکھنے کے لیے بضد رہا اور بالاخر جیت بھی اسی کی ہوئی۔ کتاب : دوڑ پیچھے کی طرف سے اقتباس
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Dr Danish (11-02-2017)
Umdah Intekhab
Thanks 4 Nice Sharing....
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks