ذرا تم ہی سوچو بچھڑ کے یہ ملنا مجیب عالم کی گائیکی ہمیشہ زندہ رہے گی



عبدالحفیظ ظفر
جب پاکستانی فلمی صنعت معرض وجود میں آئی تو نہ ہی اتنے اداکار اس نوزائیدہ صنعت کو میسر تھے اور نہ ہی اتنے گلوکار تھے۔ شروع شروع میں میڈم نور جہاں اور زبیدہ خانم نے اپنی سحرانگیز آواز سے اردو اور پنجابی فلموں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ مردگلوکاروں میں عنایت حسین بھٹی سرفہرست تھے۔ بعد میں مرد اور خاتون گلوکارائوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ مرد پلے بیک گلوکاروں میں مہدی حسن، احمد رشدی اورمسعود رانا نے بے مثل گائیکی کی جبکہ خاتون گلوکارائوں میں آئرن پروین، نسیم بیگم اور مالا نے اپنے فن کے جھنڈے گاڑے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں ایک گلوکار نے اپنی منفرد گائیکی سے اہل موسیقی کو چونکا کے رکھ دیا۔ اس شاندار گلوکار کا نام تھا مجیب عالم۔ 4 ستمبر1948ء کو کانپور (بھارت) میں پیدا ہونے والے مجیب عالم کا فلمی کیریئر اتنا طویل نہ تھا۔ ان کی آواز کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ مہدی حسن اور احمد رشدی کا امتزاج ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کم فلمی گیت گائے لیکن ان کے سپرہٹ گیتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے درجنوں سپرہٹ گانے گائے۔ ان کے گائے ہوئے گیتوں کو بہت پذیرائی ملی۔1967ء میں ندیم اورشبانہ کی مشہور زمانہ فلم چکوری ریلیز ہوئی تو اس کے نغمات نے مشرقی اور مغربی پاکستان میں مقبولیت کی تمام حدیں پار کرلیں۔ چکوری ندیم اور شبانہ کی پہلی فلم تھی۔ اس کے ہدایت کار احتشام تھے اور موسیقی روبن گھوش کی تھی۔ اس فلم میں فردوسی بیگم، ندیم اور احمد رشدی نے اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ یاد رہے کہ ندیم (نذیر بیگ) شروع شروع میں گلوکار بننے آئے تھے لیکن بعد میں انہیں بطور اداکار بہت شہرت ملی۔ ندیم نے اداکاری کے علاوہ گلوکاری بھی جاری رکھی اور کبھی کبھی ان کے گیت بھی سننے کو مل جاتے تھے۔ بات چکوری کے دلکش گیتوں کی ہو رہی تھی۔ اس فلم کے سارے گیت ہی مقبول ہوئے اور ان میں ایک گیت مجیب عالم نے بھی گایا تھا۔ اس گیت نے مجیب عالم کو بہت شہرت بخشی۔ اس گیت کے بول تھے۔ وہ میرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں اس کے بعد فلم سوغات میں ان کا گایا ہوا یہ گیت بہت پسند کیا گیا۔ دنیا والو تمہاری دنیا میں سوغات کے بھی تمام گیت ہٹ ہوئے لیکن مجیب عالم کے گائے ہوئے اس گیت کی بات ہی کچھ اور تھی۔ مجیب عالم کی کامیابیوں کا سفر جاری رہا۔ ندیم۔ رانی اور شبنم کی یادگار فلم شمع اور پروانہ ریلیز ہوئی۔ نثار بزمی کی موسیقی میں اس فلم کے بھی تمام نغمات سپرہٹ ہوئے۔ اس میں مجیب عالم کے گائے ہوئے دو نغمات بہت مشہور ہوئے۔ اب تک ان نغمات کی مقبولیت برقرار ہے۔ ایک گیت کے بول کچھ یوں تھے۔ میں ترے اجنبی شہر میں اور دوسرا گیت کچھ یوں تھا میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا مجیب عالم نے فلم رنگوجٹ میں میڈم نور جہاں کے ساتھ ایک پنجابی دوگانا گایا جو بہت پسند کیا گیا۔70ء کی دہائی کے شروع میں بھی ان کی مقبولیت برقرار رہی۔ فلم اک نگینہ میں ان کے گائے ہوئے اس گیت کو بہت پسند کیا گیا۔ یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اب ہوش میں آنا مشکل ہے 70ء کے وسط میں مجیب عالم کی مقبولیت میںکمی آ گئی۔ اس کا بڑا سبب یہ تھا کہ دو نئے پلے بیک سنگرز فلمی صنعت میں داخل ہوگئے تھے۔ ایک کا نام تھا اخلاق احمد اور دوسرے تھے اے نیئر۔ دونوں کی آواز میں ایک نیا پن تھا۔ اے نیئر کی آواز کشور کمار سے بہت ملتی تھی۔ نوجوانوں میں انہیں بہت پسند کیا گیا۔ فلمسازوں نے مجیب عالم کو نظرانداز کرنا شروع کردیا اور وہ مایوسی کی تصویر بن گئے۔ مجیب عالم کے گائے ہوئے نغمات بہت سے اداکاروں پر پکچرائز ہوئے لیکن محمد علی، وحید مراد اور ندیم پر ان کے خاصے گیت فلمبند کیے گئے۔ مجیب عالم کو کئی ایوارڈ دیئے گئے انہوں نے بنگلہ اور پشتو زبان میں بھی کئی گانے گائے اور ان کی 12آڈیو المبز ہیں۔ 1979ء میںمجیب عالم فلمی گائیکی سے ریٹائر ہوگئے اور انہوں نے پرائیویٹ شوز میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ وہ سرکاری ٹی وی کے موسیقی کے پروگراموں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ اس وقت بھی ان کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کی خدمت میں مجیب عالم کے گائے ہوئے وہ گیت پیش کر رہے ہیں جو اب تک کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ -1 وہ مرے سامنے تصویر بنے بیٹھے ہیں -2 میں ترے اجنبی شہر میں -3 میں ترا شہر چھوڑ جائوں گا -4 اے جان آرزو -5 خدا کبھی نہ کرے -6 کوئی جاکے ان سے کہہ دے -7 ذرا تم ہی سوچو، بچھڑ کے یہ ملنا -8 یوںکھو گئے تیرے پیار میں ہم مجیب عالم کی گائیکی کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ وہ طربیہ اور المیہ دونوں قسم کے نغمات یکساں مہارت سے گاتے تھے۔ 2جون 2004ء کو مجیب عالم اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انہوں نے جتنا کام کیا، بہت اچھا کیا۔ انہوںنے معیار پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی مسحور کر دیتے ہیں۔ مجیب عالم فلمی گائیکی کی تاریخ میں زندہ رہیں گے۔