wow nice sharing janab
قدم بہ قدم پاکستانتحریک آزادی کی عظیم الشان یادگار ،مینار پاکستان پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں واقع ہے۔ یہ مینار عین اس جگہ تعمیر کیا گیاہے جہاں 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرار داد لاہورمنظور ہوئی
تحریک آزادی کی عظیم الشان یادگار ،مینار پاکستان پنجاب کے دارالخلافہ لاہور میں واقع ہے۔ یہ مینار عین اس جگہ تعمیر کیا گیاہے جہاں 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرار داد لاہور جسے بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا منظور ہوئی۔ تب اس جگہ کو منٹو پارک کہا جاتا تھا لیکن بعد میں مصور پاکستان شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی نسبت سے اس کا نام اقبال پارک رکھا گیا۔ مینار پاکستان اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940 کو جلسے کا اسٹیج بنایا گیا تھا۔ اس جگہ کی نشاندھی میاں امیر الدین نے کی جو اس جلسے میں شریک تھے۔قیام پاکستان سے پہلے دو مرتبہ حکومت برطانیہ نے منصوبہ بنایا کہ منٹو پارک میں شاہ جارج پنجم کا مجسمہ نصب کیا جائے اور اسے ایک سیر گاہ بنایا جائے لیکن دونوں مرتبہ عالمی جنگوں کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک کو نہ پہنچ سکا کیونکہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یہاں عظیم الشان مینار پاکستان تعمیر ہوا جس کی وجہ سے قرار داد پاکستان کو بقائے دوام حاصل ہوئی۔ قیام پاکستان کے بعد عوام کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد آزادی، مسلم لیگ کے تاریخی جلسے اور اس میں منظور ہونے والی قرار داد کی کوئی یادگار تعمیر کی جائے۔ 23 مارچ 1959 کو بلدیہ لاہور کے ایڈمنسٹریٹر ملک عبدالطیف خان نے باقاعدہ ایک قرارداد کارپوریشن کے اجلاس میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔
صدر ایوب خان نے بھی اس خیال کی تائید کی اور پاکستان ڈے میموریل کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمشنر لاہور ڈویژن اس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ بائیس ارکان پر مشتمل اس کمیٹی میں اہم شخصیات شامل تھیں۔مینار پاکستان کا ڈیزائن ترک نژاد ماہر تعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھا کچھ لوگ انہیں نصیرالدین مراد خان کہتے اور لکھتے ہیں جو کہ غلط ہے۔ ابتدا میں قرار داد پاکستان کی منظوری کی یادگار کیلئے وسیع عمارت کا ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ مارچ 1960ء میں اس کا سنگ بنیاد گورنر مغربی پاکستان اختر حسین نے رکھا۔ اس موقع پر اس کا ایک تین فٹ اونچا لکڑی کا ماڈل بھی نمائش کیلئے رکھا گیا تھا۔ اس ماڈل کے مطابق ایک عمارت ہلال نما سبزہ زار کے وسط میں ستارے کی شکل کے چبوترے پر ایستادہ تھی۔ یہ وسیع ہال یا آڈیٹوریم تھا جہاں جلسے منعقد کئے جا سکتے تھے۔ اس کے ساتھ ایک لائبریری اور ساتھ ایک بلند مینار تھا۔ یہ ایک خوبصورت ماڈل تھا لیکن اس پر لاگت زیادہ آتی تھی۔ کمیٹی کی کوششوں کے باوجود جب اس کیلئے مطلوبہ سرمایہ جمع نہ ہو سکا تو 2 نومبر 1962ء کو موجودہ سادہ ڈیزائن منظور کیا گیا جسے مینار پاکستان کا نام دیا گیا۔
ترک نژاد نصرالدین مرات خان راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ روس میں انہوں نے سول انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے تعمیراتی مصروفیات کے ساتھ روسی مسلمانوں کے لئے فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں جس پر روسی سامراج نے انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا۔ آخر وہ روس سے جرمنی منتقل ہو گئے وہاں انہیں قیام پاکستان کے پس منظر کا پتہ چلا تو وہ بہت متاثر ہوئے اور 1950ء میں پاکستان آ کر رہائش اختیار کر لی اور 15 اکتوبر 1970ء کو لاہور میں ہی انتقال کیا۔
مینار پاکستان کی تعمیر میں مالی مشکلات کے پیش نظر نصرالدین مرات خان نے اپنی فیس جو کہ ڈھائی لاکھ روپے سے زائد بنتی تھی وہ بھی نہ لی اور فیس کے خانے میں یہ تاریخی جملہ لکھا۔''A HUMBLE DONATION TO THE NATION'' یہی نہیں انہوں نے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی اپنی جیب سے ادا کیں اور یوں دو تین لاکھ روپے مزید اپنی طرف سے خرچ کئے۔ ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا۔محمد نعیم مرتضیٰ نے اپنی کتاب نیا لاہور میں ان کے حالاتِ زندگی اور مینار پاکستان کی تعمیر کی کہانی تفصیل سے بیان کی ہے۔نوزائیدہ مملکت کو درپیش مالی مشکلات اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے باعث مینار پاکستان کی تعمیر کئی بار التوا کا شکار ہوئی اور آخر کار 31اکتوبر 1968ء کو مینار پاکستان مکمل ہوا۔ اس کی تعمیر پر 75لاکھ روپے لاگت آئی۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکہ تحریک پاکستان کے کارکن میاں عبدالخالق کو دیا گیا تھا۔ تعمیر کی نگرانی میں عبدالرحمن خان نیازی، جمال الدین، اعجاز حسین کاظمی، اقبال علی اسماعیل، مسٹر سلیم، اقبال علی اور میاں احمد علی وغیرہ شامل تھے۔مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل پاکستانی ہے۔ سنگ مرمر ضلع ہزارہ اور سوات سے منگوایا گیا تھا۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے۔ جو 180 فٹ تک لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے اس سے اوپر کا حصہ اسٹیل کا ہے۔ اس کی پانچ گیلریاں اور بیس منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری تیس فٹ اونچائی پر ہے۔ مینار پر چڑھنے کے لیے 334 سیڑھیاں ہیں۔ جبکہ لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔مینار کی تعمیر اس انداز سے کی گئی ہے کہ یہ جدوجہد آزادی کی داستان بیان کرتا ہے۔ اس کے ابتدائی چبوترے کی تعمیر کھردرے پتھروں سے کی گئی ہے جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں مشکل مراحل طے کر کے پاکستان حاصل کیا گیا۔اس سے اوپر والے چبوترے کی تعمیر میں قدرے ملائم پتھر استعمال کیا گیا ہے جس سے مسلمانوں کی حالت میں بہتری کی عکاسی ہوتی ہے۔ جوں جوں بلندی کی طرف جائیں نفاست میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ پاکستان بتدریج ترقی و خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔ مینار کے آخر پر چمکنے والا گنبد اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے۔ مینار کی پہلی منزل کی چھت گنبد نما ہے اس پر خوبصورت جالی دار پھول اور بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
wow nice sharing janab
Kis Ki Kya Majal Thi Jo Koi Hum Ko Kharid Sakta Faraz,..Hum Tu Khud Hi Bik Gaye Kharidar DekhKe..?
intelligent086 (03-06-2017)
رائے کا بہت بہت شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks