انسان کی تین غلط فہمیاں شاکراللہ چترالی

حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: صدقہ نے کبھی مال میں کمی نہیں کی، جب بھی کسی مظلوم نے معاف کیا تو اس معافی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس مظلوم کی عزت میں اضافہ فرما دیا اور جس بندے نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تواضع کی خصلت کو اختیار تو اللہ تعالیٰ نے اس کو رفعتوں سے ہی نوازا۔
تشریح: انسان اپنی کم علمی اور بداندیشی بعض چیزوں اپنے لیے مفید سمجھتا ہے لیکن فی الحقیقت نتیجہ بہت ہی مختلف ہوتا ہے۔ انسان طبعاً بخیل اور حریص واقع ہوا ہے، اس لیے مال خرچ کرنے سے کتراتا ہے اور ڈرتا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ مال خرچ کرنے سے ختم ہی ہو جائے، پھر میرا یا میری اولاد کا کیا بنے گا؟ اس لیے مال جمع کرتا اور پھر گن گن کر رکھتا ہے۔ کچھ اس میں طبعی بخل کا دخل ہے تو کچھ شیطان دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈال کر ڈارتا رہتا ہے، اس لیے آپ ﷺ نے اس خوف سے نکالنے کے لیے فرمایا کہ صدقے سے مال میں کمی نہیں آتی۔ اسی طرح انسان طبعاً منتقم مزاج واقع ہوا ہے، کسی کے ساتھ دوسرے کی طرف کسی بھی نوع کی کوئی زیادتی ہوجائے تو فوری طور پر غیض و غضب کا شکار ہوجاتا ہے، شیطان یہ وسوسہ دل میں ڈالتا ہے کہ اگر انتقام نہیں لیں گے تو عزت خاک میں مل جائے گی تو اس وسوسے کا علاج طب نبویﷺ سے فرمایا گیا کہ معافی سے عزت بڑھتی ہے، اگرچہ انسان کو اپنی کم علمی سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن حقیقتِ حال ایسی نہیں ہے، عزت معافی سے ہی بڑھتی ہے۔ اسی طرح تیسری غلطی اور کوتاہ اندیشی انسان کی یہ ہے کہ اس ذرا مال یا معمولی کمال ملنے سے پھولنے لگتا ہے، تکبر سے اس کا پارہ چڑھتا ہے، وہ مال اور کمال کو عطیۂ خداوندی کے بجائے اپنا ذاتی ورثہ سمجھتا ہے، حالانکہ یہاں بھی اس وسوسوں کے برعکس ہے، رفعت تکبر کے بجائے تواضع میں ہے۔