intelligent086 (10-16-2016)
اسلام سب کا ہے
سچی کہانی
بابا شکر اللہ بھلے آدمی تھے
صوم و صلوتہ کے ہی پابند نہ تھے
قول کے کھرے
ہاتھ کے بھی کھلے تھے
اچھا کہتے اچھا کہنے کو کہتے
اچھا کرتے اچھا کرنے کو کہتے
لوگوں کا ان کے پاس آنا جانا تھا
بساط بھر ان کی خدمت کرتے
لینے کے خلاف تھے
اگر کوئی کچھ لے آتا
واپس اسے لے جانا پڑتا
جعلی پیروں کی ٹھگی پر افسردہ رہتے
کہتے
انہیں تو لوگوں کو حضور کی راہ پر چلانا ہے
حضور دیتے تھے
ان کا لینا کہیں ثابت نہیں
لوگ انہیں پیر سمجھتے تھے
یہ الگ بات ہے
انہوں نے خود کو کبھی پیر مانا نہیں
کوئی پیر کہتا تو برا مناتے
پنشن پر گزرا کرتے
اماں جی گھر میں
بلا فیس بچوں کو پڑھاتیں
عرصہ سے
ان کے ہاں یہ ہی طور چلا آتا تھا
مجھ ناچیز کو بھی
ان کے پاس بیٹھنے کا شرف رہتا
ایک بار
اک مولوی صاحب ان کے پاس آئے
سلام دعا بلا کے بیٹھ گئے
توند بس مناسب ہی تھی
ہاں شلوار ٹخنوں سے اوپر تھی
مونچھوں کا کہیں نام و نشان نہ تھا
داڑھی سرسیدی تھی
بولے حضرت اک سوال پوچھنا ہے
بابا بولے اللہ علیم و خبیر ہے
معلوم ہوا تو ہی جواب دے سکوں گا
ہاں غور تو ہو سکتا ہے
مولوی صاحب بولے: کیا حضور کو ّعلم غائب تھا
مولوٰی کے لہجے میں
مولوٰی کی آنکھوں میں شرارت تھی
بابا صاحب پہلے تو مسکرائے
پھر رنجیدہ ہو گئے
بابا صاحب نے کہا: افسوس مولوی صاحب
افسوس صد افسوس
کرنے کے کام کرتے نہیں ہو
یہ اللہ اور اس رسول کا معاملہ ہے
اس پر زور آزماتے ہو
ہے تو بھی نہیں ہے تو بھی
یہ ہمارا معاملہ نہیں ہے
ہمیں تو بس اس سے کام ہے
آپ کے کہے میں وحی کا اہتمام ہے
آپ کا کہا گویا اللہ کا کہا ہے
مولوی صاحب کیسے ہیں آپ
کان دیکھتے نہیں
کتے کے پیچھے دوڑے بھاگے جاتے ہو
کبھی خود سے بھی سوچ لیا کرو
دعوی تمہارا ہو گا کہ پڑھا لکھا ہوں
علم قریب سے بھی گزرا ہوتا
یہ سوال نہ کرتے
کیا حضور کو ّعلم غائب تھا
تمہارا کہا ہی تضاد کا شکار ہے
کہتے ہو حضور
صیغہ تھا کا استعمال کرتے ہو
لفظ حضور حاضر کے لیے ہے
مانتے ہو آپ حاضر ہیں
تھا کہہ کر نفی کرتے ہو
یہ کیا بات ہوئی
وہ حاضر ہیں پر کیا کریں
ہماری آنکھٰں
انہیں دیکھنے کے قابل نہیں ہیں
دیکھنے والے دیکھتے ہیں
یوں بھی لے سکتے ہو
تاقیامت قرآن باقی ہے
آپ حاضر ہیں
خیر یہ تضاد تمہارے پوچھنے میں ہے
تضاد کی دنیا سے نکلو کہ امت متحد ہو
مذاہب غیب پر ایمان رکھنے پر استوار ہیں
اللہ تم نے دیکھا نہیں
جنت دوزخ جن فرشتے تم دیکھے نہیں
حاضر کو دیکھا نہیں
قرآن اترتے دیکھا نہیں
ان سب پر ہر کلمہ گو کا ایمان ہے
تب ہی تو مسلمان ہے
حضور پر قرآن اترا
بے شک لانے والے کو حضور نے دیکھا
وہ فرشتہ تھا انسان نہیں تھا
بھیجنے والے سے متعلق آگہی ہو گی
جو کسی نے نہیں دیکھا
حضور نے دیکھا جانا
علم غیب کا ہونا اور کس کو کہتے ہیں
میں سے گزر کر تو میں آنے والا
کب کسی پر کھل سکتا ہے
یہ معاملہ حضور کا ہے
وہ جانیں یا ان کا خدا جانے
ہمیں اس سے مطلب نہیں
اگر ہم مسمان ہیں تو سیدھا چلیں
اللہ کی مخوق کے کام آئیں
لایعنی چکروں میں پڑو گے
تو مرو گے
خود ڈوبو گے یہ معاملہ تمہارا ہے
اوروں کو ڈبو دو گے
یہ معاملہ اسلام کا ہے
اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا
اسلام تمہارا ہی نہیں
اسلام سب کا ہے
intelligent086 (10-16-2016)
بے شک
اچھی شیئرنگ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
shukarriya janab
السلام علیکم بابا جی۔
بات تو پتے کی ہے۔
مگر آج کا انسان عمل سے زیادہ سوال و جواب میں الجھا ہے۔ گویا یقین ہوتے بھی بے یقینی کی کیفیت سے دو چار۔
اسکی وجہ کیا ہے؟
ایسے ایسے سوال ڈھونڈ لاتا ہے انسان۔ کہ جسکا جواب عقل والا بھی دینے سے کتراتا ہے۔ نا جانے ایسا سوال پوچھ کر اپنی عقل منواتا ہے انسان۔ یا پھر دوسرے کی عقل کو آزماتا ہے۔
ویسے حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان دوسروں پر اثر انداز ہونا زیادہ پسند کرتا ہے۔ لہٰذا اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ اسکے سوال میں واقعی سوال پوشیدہ ہے۔ یا اپنی عقل منوانے کا گر۔
بہت عمدہ تحریر۔
Dr Maqsood Hasni (10-18-2016)
aisa hi hai
tovajo ke liay bari bari meharbani
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks