SHAREHOLIC
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 1 of 1

    Thread: دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ

    1. #1
      UT Poet www.urdutehzeb.com/public_htmlwww.urdutehzeb.com/public_html Dr Maqsood Hasni's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Posts
      2,263
      Threads
      786
      Thanks
      95
      Thanked 283 Times in 228 Posts
      Mentioned
      73 Post(s)
      Tagged
      6322 Thread(s)
      Rep Power
      82

      دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ

      دیکھتے جاؤ‘ سوچتے جاؤ

      زندگی ایسی سادہ اور آسان چیز نہیں‘ اس کے اطوار کو سمجھنا بڑا ہی دقیق کام ہے۔ ہر لمحہ‘ اس کا چہرا ہی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے‘ آدمی ملا تھا‘ پتا چلا چل بسا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ چنگا بھلا تو تھا‘ یہ اچانک اسے کیا ہو گیا۔

      اسی طرح اس کے انداز رویے‘ ایک ہی وقت میں‘ مختلف ہوتے ہیں۔ ایک رو رہا ہے‘ تو دوسرا ہنس رہا ہے۔ ہنسے والے کو رونے والے پر اور رونے والے کو ہنسے والے پر‘ اعتراض کی اجازت نہیں۔ اگر اعتراض کریں گے‘ تو فساد کا دروازہ کھل جائے گا۔ یہ فساد‘ لمحوں کا بھی ہو سکتا ہے‘ اس کے اثرات نسلوں تک بھی جا سکتے ہیں۔

      اس نے پوچھا: کیسے ہو
      اللہ کے فضل سے ٹھیک ہو
      اس نے سر ہلایا اور منہ میں کچھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔
      وہ اس بڑبڑاہٹ کا مفہوم نہ سمجھ سکا۔ اس کا مفہوم یہ تھا‘ کہ اب دیکھتا ہوں‘ ٹھیک ہو یا نہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں‘ پلس آ گئی اور اسے پکڑ کر لے گئی۔
      پھر وہ تھانے پہنچا اور پوچھا کیسے ہو۔
      اس نے جوابا کہا: مصیبت میں ہوں۔
      اب آئے نا اصل ٹھکانے پر
      جی کیا کہا
      کچھ نہیں
      فکر نہ کرو‘ ضمانت کروا لیتے ہیں۔ تم جانتے ہو‘ خرچا پانی تو لگتا ہی ہے۔
      میں گریب آدمی ہوں‘ خرچا پانی کدھر سے آئے گا۔
      اپنی اوقات میں رہتے‘ غلط کام کیوں کرتے ہو۔
      مجھے نہیں پتا‘ میں نے کیا کیا ہے۔
      سارے مجرم اس طرح ہی کہتے ہیں۔
      تم گریب لوگ بھی بڑے عجیب ہوتے ہو۔ کہا تھا‘ بہن کو ہمارے ہاں کام کے لیے بھیج دیا کرو۔ تمہاری غیرت نے گوارا نہ کیا۔ اب بھگتو۔
      آیا بڑا غیرت مند

      یہ ہی زندگی ہے۔ متضاد رویے متوازی چل رہے ہیں۔ یہ بات آج ہی سے تعلق نہیں کرتی‘ زندگی شروع ہی سے ایسی ہے۔ پوچھنے والے‘ خود اسی مرض میں مبتلا ہیں۔ ان حالات میں بھی لوگ زندگی کر رہے ہیں‘ کرتے رہیں گے۔

      اس نے پی سی ایس میں کامیابی حاصل کی۔ ہنسنے کی بجائے‘ اس کے آنسو نکل گئے۔
      بیٹا مرا‘ دھاڑیں مار کر رونے کی بجائے‘ چپ لگ گئی اور سب کی طرف‘ بٹر بٹر دیکھنے لگا۔
      باپ مرا‘ ذہنی توازن ہی کھو بیٹھا۔
      بیٹی پیدا ہوئی‘ بیوی کو طلاق دے دی‘ جیسے تخلیق کار اس کی بیوی تھی۔

      خاوند مرا بڑا ہی صدمہ ہوا۔ پچاس عورتوں میں اس قسم کے بیانات جاری کرنے لگی۔
      ہائے میں مر گئی۔ زندگی بھر دکھ دیتے رہے۔ ایک لمحہ بھی سکھ نہ دے سکے۔ زندگی بھر غیروں کی محتاج رہی۔ تم پر رہتی تو گھر ویران رہتا۔ اب مر کر دکھ دے گئے ہو کہ غیروں کی ہی محتاج رہوں۔
      نشہ پانی سے ہمیشہ منع کرتی رہی‘ تم نے میری ایک نہ سنی‘ اگر مان جاتے تو یہ دن تو نہ دیکھنا پڑتا۔
      جوئے نے تمہیں برباد کیا‘ پیسے بچاتے تو کفن دفن کا سامان ہی لے آتی۔ آج میرے پاس پھوٹی کوڑی تک نہیں۔
      میرے نصیب ہی سڑ گئے‘ جو تایا نے کچھ نہ دیکھا اور رشتہ دے دیا۔
      ہائے میں مر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ لوکو میں لٹی گئی۔

      یہاں جسے دیکھو‘ امریکہ کے خلاف باتیں کر رہا ہے۔ اگر کوئی پیشاب سے بھی تلک پڑتا ہے‘ الزام امریکہ پر رکھتا ہے۔ اسے اس میں امریکہ کی‘ کسی ناکسی سطع پر‘ سازش محسوس ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر امریکہ کا ویزا عام ہو جائے تو میرے سوا‘ میں اس لیے نہیں کہ بیمار اور بوڑھا ہو چکا ہوں‘ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے لیے‘ مرنے مارنے پر اتر آئے گا۔ شاید اس لیے کہ کالیاں یا تقریبا کالیاں‘ دیکھ دیکھ کر‘ صاحب اخگر اکتا سے گئے ہیں۔ سنا ہے‘ وہاں لکیر کی فقیری نہیں کرنا پڑتی‘ بل کہ لکیر مضبوط صاحبان اخگر کی فقیری کرتی ہیں۔ ڈالر کماؤ چٹیاں اڑاؤ‘ نہ کوئی روک نہ کوئی ٹوک۔

      مذہبی مین کا رویہ بھی‘ معاشرت سے الگ تر نہیں رہا۔
      ایک مذہبی مین سے کسی بی بی نے کہا: مجھے کسی سے پیار ہو گیا ہے۔
      جوابا مذہبی مین نے کہا: وہ کون جہنمی ہے۔
      بی بی نے جواب دیا: آپ سے۔
      مذہبی مین فورا بول اٹھا: چل جھوٹی۔
      اسی قماش کا ایک اور لطیفہ معروف ہے۔ مذہبی مین بیٹھے ہوئے تھے۔ طے ہوا عورت کو دیکھنا بھی نہیں اور اس کی بات بھی نہیں ہو گی۔ کچھ ہی دیر بعد ایک مذہبی مین بولا لڑکی۔۔۔۔۔
      سب ایک آواز میں پکار اٹھے کہاں ہے‘ کہاں ہے۔

      مذہبی مین کے متعلق ایک اور کہاوت مشہور ہے۔
      کسی بی بی نے پوچھا: اگر میں وزیر اعظم سے پیار کرنے لگوں تو
      سیدھی دوزخ میں جاؤ گی۔
      وزیر اعلی سے پیار کروں تو
      تو بھی دوزخ ٹھکانہ ہو گا۔
      اگر آپ سے
      بڑی سیانی ہو‘ جنت جانے کا پروگرام ہے۔

      چھوٹے والی روزانہ طعنہ دیتی تھی‘ نیچے سے کھاتا ہے۔ میں نے تنگ آ کر‘ دس اکتوبر ٢٠١٠ سے روٹی کھانا ہی چھوڑ دی۔ اب سوچتا ہوں‘ کتنی بڑی غلطی کی تھی۔ آدم علیہ اسلام نے‘ گندم کا دانہ کھایا‘ جنت بدر ہوئے۔ اگر میں روٹی نہ چھوڑتا تو شاید‘ میں بھی جہنم بدر ہو جاتا۔ روٹی بھی تو گندم سے ہی تیار ہوتی ہے۔ اگر گندم کا دانہ لکیر کا استعارہ ہے‘ تو یہ الگ بات ہے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے‘ وہ دانہ گندم کا تھا یا اس سے مراد لکیر تھی۔

      طاقت ہی‘ زندگی کا سب سے بڑا سچ رہا ہے۔ ابراہیم لودھی‘ کیسا تھا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اس کا اور اس کی ماں کے ساتھ بابر نے کیا کیا‘ کوئی نہیں جانتا۔ بابر تاریخ میں ہیرو ہے۔ لوگ فخر سے‘ اپنے بچوں کے نام بابر رکھتے ہیں۔
      بابر کا قول ہے:
      بابر عیش کوش کہ دنیا دوبارہ نیست۔
      بابر نے خون سے گلی بازار رنگ دئیے‘ کوئی نہیں جانتا‘ بابر فاتح ٹھہرا‘ اس لیے ہمارا ہیرو ہے۔

      ہمایوں کے بھائی سازشیں کرتے رہے‘ وہ معاف کرتا رہا۔ پوتے نے‘ تخت و تاج کے لیے بھائی تو بھائی‘ ان کی الادیں بھی ذبح کر دیں۔ اپنی لاڈلی بیگم کا مقبرہ تاج محل‘ بنایا تاریخ میں زندہ ہے اور بڑا نام رکھتا ہے۔

      تاریخ کے نبی قریب بادشاہ اورنگ زیب نے‘ بھائی تو بھائی‘ باپ کو بھی نہ بخشا۔ بہن جس نے مخبری کرکے‘ اس کی جان بچائی تھی‘ کو بھی قید کیے رکھا‘ کیوں‘ کوئی نہیں جانتا۔ تاریخ ہی نہ لکھنے دی۔ خانی خاں نے بھی چوری چھپے لکھی۔

      ہندوستان مسلم ریاست نہ تھی۔ مسلمان محض چند فی صد تھے۔ اسلام کا ماما بن کر‘ سرمد جیسے بندہءخدا کو شہید کر دیا۔ اصل معاملہ کوئی اور تھا‘ جو آج تک کھل نہیں سکا۔ سوال پیدا ہوتا ہے‘ بہن کو کیوں نظر بند کیے رکھا۔ وہ قاضی اور جلاد نہ تھا‘ جو خود ہی فیصلہ کیا اور سرمد کو اپنے ہاتھوں سے‘ قتل کر دیا۔ مقتدرہ قوت تھا‘ تاریخ میں زندہ ہے۔

      حسین ابن علی مفتوح تھے‘ زندہ ہیں اور اپنے لاکھوں دیوانے رکھتے ہیں۔

      یزید ابن معاویہ کو جنتی اور حسین ابن علی کو باغی کہنے والے بھی موجود ہیں۔ حجت اللہ‘ اس کے رسول اور الامر کی اطاعت کو پیش کرتے ہیں۔ گویا دسترخوان پر ایک طرف کھیر‘ اس کے ساتھ حلوہ اور اس سے آگے گوبر رکھ دو۔ کون کھائے گا۔ کوئی دسترخوان پر بیٹھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ اس حساب سے‘ نمررد‘ شداد اور فرعون درست تھے۔

      حیرت انگیز بات یہ کہ ٹیپو مفتوح ہے‘ لیکن بڑا نام رکھتا ہے۔ کیوں
      اپنے تاج و تخت کے لیے لڑا تھا۔ کیوں زندہ ہے‘ بہت بڑا سوالیہ ہے۔

      سوچتے جاؤ‘ دیکھتے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے روبرو چیز سمجھ میں نہ آ سکے گی کیوں کہ زندگی بڑی پچیدہ اور الجھی ہوئی گھتی ہے‘ جسے سمجھنا آسان کام نہیں۔


      خودی بیچ کر امیری میں نام پیدا کر

      ایک شخص چور کے پیچھے بھاگا جا رہا تھا۔ رستے میں قبرستان آ گیا۔ چور آگے نکل گیا جبکہ وہ شخص قبرستان میں داخل ہو گیا۔

      کسی نے پوچھا یہ کیا؟

      اس نے جوابا کہا اس نے آخر آنا تو یہاں پر ہے نا ۔

      ایک اخباری اطلاع کے مطابق لاہور ہاءیکورٹ نےتوہین عدالت کے حوالہ سے اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کر دءے ہیں۔ یہ کاروائ ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم کی رٹ کے حوالہ سے عمل میں آئ ہے۔ ڈی ڈی سی (کالجز) ڈاکٹر اکرم اپنی جیت کے نشہ سے سرشار ہوں گے۔ اعلی شکشا منشی کالجز کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہونا کوئ ایسی عام اور معمولی بات نہیں۔ عدالت نے وہی کیا جو کیا جانا چاہیے تھا۔ منصف قانون کے داءرے میں رہتا ہے اور قانون کی حدود کسی کو توڑنے نہیں دیتا۔ کالا گورا ماڑا تگڑا گریب امیر قانون کی نظروں میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

      عدالت نے جو کیا درست کیا اور درست کے سوا کچھ نہیں کیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈی ڈی سی(کالجز) ڈاکٹر اکرم نے اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس کے مروجہ اصول و ضابط کی پھٹیاں اکھیڑنے کی جسارت تو نہیں کی؟

      اگر اس نے ایسا کیا ہے تو اپنے انجام کو کیوں بھول گیا۔ کیا وہ یہ نہیں جانتا کہ آخر لوٹ کر آنا تو یہاں پر ہی ہے۔ کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اعلی شکشا منشی کالجز ہاؤس میں بڑے بڑے پھنے خانوں کی زندہ ہڈیاں بوٹیاں دفن ہیں۔ کوئ نشان تک نہیں تلاشا جا سکتا۔ اب صرف اور معاملہ ہے لیکن آتے وقتوں میں اس معاملے کے بطن سےان گنت معاملات جنم لیں گے۔

      یہ بڑے کمال کا سچ ہے کہ اس عہد کی عدلیہ آتے کل کے لیے اعی درجے کا حوالہ چھوڑ جاءے گی۔ اس کا کردارمثال بنا رہے گا۔ عدالت کو کوئ اور کام نہیں جو ڈاکٹر اکرم کےمعاملات کو دیکھتی پھرے گی۔ کہاں تک بھاگیں گے۔ دوڑ دھوپ کرنے والوں کو پہاڑ کے نیچے آنا ہی پڑتا ہے۔ جو بھی مہا منشی ہاؤس سے ٹکرایا ہے عبرت کی جیتی جاگتی تصویر بن گیا ہے۔ کوئ مائ کا لال پیدا نہیں ہوا جو ان کی پہلی رکات سے بچ کر نکل گیا ہو۔ یہ بھی کہ کسی ریسرچ اسکالر کو ہمت نہں ہو سکی کہ وہ یہاں بلڈوز ہونے والوں کا اتا پتا دریافت کرنے کی ہمت کر پایا ہو۔ یہ ہڈیوں بوٹیوں کا بلا کنار سمندر ہے۔ میں سب جانتے تجربہ رکھتے اور بلا مرہم زخمی ڈاکٹر اکرم کی ہڈی بوٹی کی خیر کی دوا کےلیے دست بہ دعا ہوں۔ تصویری نمایش کے شوقین اس کمزوروں کے پرحسرت قبرستان کی جانب شوقین نظریں اٹھا کر تو دیکھیں نانی نہ یاد آ گئ تو اس پرحسرت قبرستان کا نام بدل دیں۔

      ہمارے ہاں تعلیم عام کرنےکی رانی توپ سے دعوے داغے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ناخواگی کے بیج بوءے جاتے ہیں۔ اعلی اور تحقیق سے متعلق تعلیم کی راہوں میں مونگے کی چٹانیں کھڑی کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں صرف ایک حوالہ درج کرنے کی جسارت کروں گا۔ ۔حساب شماریات وغیرہ این ٹی ایس میں شامل ہوتے ہیں۔ آرٹس والوں کا ان مضامین سے کیا کام ۔ اس ٹسٹ میں ان کے مضامین سے متعلق سوال داخل کءے جاءیں۔ یوں لگتا ہے یہ مضامین انھیں فیل کرنے یا ٹسٹ میں حصہ نہ لینے کی جرات پیدا کرنے کے لیے این ٹی ایس سی میں داخل کءے گءے ہیں۔

      حساب اور شماریات کا تعلق چناؤ وغیرہ سے ہے۔ ان مضامین کا چناؤ ٹسٹ میں شامل کرنا بےمعنی اور لایعنی نہیں لگتا۔ ایک اخباری خبر کے مطابق چناؤ کے حوالہ سے بارہ کروڑ روپے سکہ راءج الوقت بھاؤ لگ گیا ہے۔ اگر یہ رقم کسی گریب آدمی کو دے دی جاءے تو وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر ہی پھر جاءے گا۔ اگر چیڑا اور پکا پیڈا نکلا تو گنتے گنتے عمر تمام کر دے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ گنتی کے دوران ہی کوئ ڈاکو لٹیرا اسے گنتی کی مشقت سے چھٹکارا دلا دے۔ حساب اور شماریات اگرچہ بڑے اہم اور کام کے مضامین ہیں لیکن ان کا متعلق پر اطلاق ہونا چاہیے۔ غیر متعلق پر اطلاق بڑا عجیب وغریب لگتا ہے۔

      عجیب ہو یا نہ ہو' اس معاملے کا تعلق غربت سے ضرور ہے۔ جمہوریت امریکہ سے درامد ہوئ ہے۔ یہ مقامی عربی یا اسلامی نہیں ہے۔ اس کا نعرہ ہے:

      عوام کی حکومت حکومت تو الله کی ہے۔

      عوام کے ذریعے پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا الله' کدھر گیا۔

      عوام کے لیے وڈیرے کیا ہوءے۔ وہ حکومت کرنے کے لیے باقی رہ جاتے ہیں۔ گویا وہ سرکار ٹھرتے ہیں اور عوام رعایا۔

      براءے نام سہی رعایا عوام کا حوالہ موجود ہےاور یہ رعایا عوام کی تسکین کا بہترین موجو ہے۔ بارہ کروڑ بھاؤ نے تو براءے نام رعایا عوام کی اصل حیقیت کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ میری اس دلیل سے واضح ہو جاتا ہے کہ حساب اور شماریات جیسے مضامین ہر کسی کے لیے ہو ہی نہیں سکتے۔ ہاں البتہ مال خور منشی شاہی کے لیے بھی لازمی سے لگتے ہیں۔ ان کی سلیکشن کے حوالہ سے ان مضامین کی برکات کو نظرانداز کرنا مال خور منشی شاہی کو ناقابل تلافی نقصان پہچانے کے مترادف ہے۔

      اقبال ساری عمر خودی خودی کرتا رہا اور خودی میں ترقی بتاتا رہا۔ میں نے تو آج تک خوددار لوگوں کو ذلیل وخوار ہوتے دیکھا ہے۔ اپنی اور سماجی خودی بیچنے والے نام پیدا کرتے آءے ہیں ۔جمہوریت کے لفافے میں انھوں نے قومی آزادی عزت اور حمیت کا خون ملفوف کیا ہے۔ اس کارنامے کے صلہ میں پیٹ بھر کھایا ہے اور محلوں میں اقامت رکھی ہے۔ عہد حاضر میں خودی وکاؤ مال ہو گئ ہے۔ جو بھی رج کھاناچاہتا ہے اسے اقبال کے کہے پر مٹی ڈال کر اس کے مصرعے کو یوں پڑھنا اور اسی حوالہ سے زندگی کرنا ہو گی:



    2. The Following User Says Thank You to Dr Maqsood Hasni For This Useful Post:

      Rana Taimoor Ali (11-28-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •