afaq ali (03-14-2016),Arosa Hya (03-15-2016),CaLmInG MeLoDy (03-16-2016)
!!!بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نموبی بھی اپنے نام کی ایک ہی ہیں۔پاکستان میں ہوں تو یہاں کے حالات سے نالاں رہتی ہیں اور پاکستان سے باہرہوں تو اسکی محبت اور عقیدت کے گن گاتی رہتی ہیں۔پچھلے برس نومبر سے کینیڈا اوربرطانیہ میں مقیم تھیں۔وجہ وہی پرانی،برف باری اور سردی کا موسم جو کراچی میںناپید ہوا کرتا ہے۔سردی کےموسم سے مکمل لطف اندوز ہونے اور پاکستان سے جدائی اور دوری میں ٹھنڈی آہیں بھرنےکے بعد اس برس اپریل میں جونہی نموبی کی سواری بادِ بخاری کی قدم بوسی اس سرزمینِ پاک پر ہوئی ہے اس کے دوسرے ہی دن سے کراچی میں سورج سوانیزے پر براجمان دِکھائی پڑتا ہے۔
گرمی اور اِس بلا کی گرمی کی حافظے سے امن،چین اور سکون آور موسم کا احساس ہی محو ہوگیا ہے۔پناہ مانگتے مانگتےپناہ کا لفظ بھی بے ضرر،بے اثر اور چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے۔اس سہانے موسم میں اباواپڈا،اماں کے الیکڑک اور باجی بجلی کی کرم فرمائیاں تڑکے کا کام دیتی ہیں اورمزید جلتی پر تیل کی ذمہ داری پھوپھا واٹر بورڈ نے اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
بہرحال بات نمو بی کی ہورہی تھی۔یوں تو محترمہ اپنے ہر سیاحتی دورے کے بعد جب بھی پاکستان تشریف لاتی ہیں توکوئی نہ کوئی غیر معمولی تبدیلی اپنے اندر سموئے ہی جلوہ افروز ہوتی ہیں۔اور کچھعرصے بعد اس تبدیلی کو اپنے آپ سے پرے کر کے پرانی ڈگر پر واپس لوٹ آتی ہیں۔لیکن اس بار نقصان کچھ سوا ہوا ہے۔
اس بار وطن واپسی پر نمو بی اپنی زَبان کہیں بھول آئی ہیں۔جی ہاں! زُبان نہیں زَبان۔اور جو اپنے ساتھ واپس لائی ہیں،وہ،وہ زَبان تو ہرگز نہیں جو انھیں ان کے والدین اور اساتذہ نےپڑھائی،سکھائی اورسمجھائی ہے۔
کل ہی مجھے ملاقات کا شرف بخشنے کے بعد سے شدید ذہنی اذیت،صدمے اور حیرت میں مبتلا کرگئیں ہیں۔گھر میں قدم رنجہ فرماتے ہی میری بے خبری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ایک عدد نوبل پرائز(گھونسا)عنایت فرماکر کہنے لگیں“ہاں بھئی مرزی مربّہ! کہاں گم ری ہو،آجکل کیاکررئی ہو؟“
کافی دیر تو مجھے یہی سمجھ نہیں آیا کہ محترمہ نے گھوم رہی پوچھا ہے یا گم ہو دریافت فرمایا ہے۔میرے چہرے پرالجھن اور شش و پنج کے تاثرات دیکھ کر بولیں“کیا ہوا میں نے کوئی اِتّا مشکل سوال تو نئیں کرا ہے۔“
حٰیرت زدہ آواز میں،میں نےپوچھا“نموبی! یہ آپ کس زَبان میں بات کر رہی ہیں؟ جواباً اک ادائے بےنیازانہ کےساتھ داغ کا شعر مرحمت فرمایا:
اردو سے جس کا نام ہمی جانتےہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
“جی بالکل! وہ اردو ہے جس کی دھوم ہے۔پر جو آپ بول رہی ہیں وہ کوئی اور ہی شے ہے۔اپنی زَبان کہاں بھول آئی ہیں نمو بی؟“
جھنجھلا کے گویا ہوئیں“اوہو!انیس سو سوا ڈیڑھ کے دیمک زدہ غاروں کی پھپھوند لگی بھیگی گیلی صحافت کے نام پرمرزی مربّہ۔۔! یہ جدید اردو ہے۔کتابی چہرہ(فیس بک) کا استعمال کررئی ہوروز ای،پرسیکھ کچھ نہیں رئی۔جس انداز میں تم بات کرتی ہو وہ طریقہ اب کسی کو سمجھ نہیں آتا۔
جو کام پہلے کیا جاتا تھا،وہ اب کراجاتا ہے۔بات کہی جاتی تھی،اب بولی جاتی ہے۔کھانا اور روٹی پکتے تھے،اب بننےلگے ہیں۔گویا روٹی نہیں ربر کی گیند ہے جو کاغذ پر بنانی ہے۔پھر“فر“ ہوگیا ہے۔بدامنی کی جگہ مُنی بے امنی نے لے لی ہے۔مہارت حاصل کروائی جانے سے کرائی جانا ہوگئی ہے۔تمہیں،“تم سے“ ہوگیا ہے۔
چمچ کو اسپون نہ کہو تو وہ برا مان جاتا ہے کہ اسے سیاستدانوں میں کیوں شمار کیا۔ہاتھ دھونے کو ہینڈ واش کرےنہ کہنا اخلاقی بد تہذیبی کے زُمرے میں آتا ہے۔بالکل کا نیا املا بلکل ہے۔خ کو“کھے“ کی آواز کے ساتھ ادا نہ کیا تو منہ کھول کے زیادتی کی۔
پھل فروش،اشیائے خوردونوش،ریڑھی بان جیسے الفاظ متروک ہوچکے ہیں،کسی کے گوش گزار کرنے سے پہلے ان کےانگریزی متبادل ضرور ذہن نشین کرلیں۔بصورتِ دیگرآپ کا شمار جُہلا اور قدامت پرستوں کی فہرست میں ہونا لازمی ہے۔
سامعین“لسنرز“ اور ناظرین “ویوورز“ کے لفظوں میں ڈھل گئے ہیں۔یہ اردو کا نہیں رومن اردو کا دور ہے۔اور اس میں سب آسان ہے،زَبان بھی،کچھ سمجھی آئی؟“
“جی نموبی! آگئی سمجھ“ میں نے جواب دیا۔“کیا آرئی سمجھ میں“ایک ہاتھ کمر پر ٹِکا کر دریافت فرمایا۔“یہی کہ ہم کسی اور کام میں ماہر ہوں یا نہ ہوں،اندھی تقلید،وہ بھی اپنےاصل کو بھلادینے کی اندھی تقلید میں کمال مہارت کےحامل ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنی ڈھٹائی پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوتے“۔قہقہہ لگا کر بولیں“جلو،کڑھو۔اچھا ہے تمہارا رنگ بھی تھوڑا کوئلے جیسا ہووے۔تم جیسے لوگ اس کے علاوہ اور کچھ کربھی نئیں سکرے۔“
واقعی۔۔! مجھ جیسے اپنے اصل سے وابستہ،اس پر نازاں،مٹی کے ساتھ پیوستہ،خاک سے جڑے،اپنے حقیقی تشخص پرنازاں اسےبرقرار رکھنے کی کوششِ ناتواں کرنے والے اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔سوائے اپنی درست ڈگر پر محوِ سفر رہنے کے۔مخالفت سہنے کے۔اور اگر یہ جرمِ سنگین ہے تو،بہ سروچشمِ یاراں کہ
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتےہیں داغ
پر
!!بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامن مرزا
Last edited by Mamin Mirza; 03-14-2016 at 10:09 PM.
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
afaq ali (03-14-2016),Arosa Hya (03-15-2016),CaLmInG MeLoDy (03-16-2016)
janab ap ki tehreeer to hoti hi lajwab he Haqiqat he k urdu ko bara maskh kar diya gaya he magar ye sirf urdu hi ni har zubaan k yhi haal he Global Village banay gi dunya to yehi haal ho ga
Allah tumein salamat rakhay or yunhi Acha acha likhti raho
Mamin Mirza (03-14-2016)
intelligent086 (03-15-2016)
سبق آموز اور خوب صورت تحریر ، اگر اردو تہذیب قومی زبان کی ترویج و ترقی کے لیئے کوشش کرتا تو بہت اچھا تھا ، لیکن یہاں بھی رومن اردو سے اردو کو زبیحہ کیا جارہا ہے۔۔
شیئر کرنے کا شکریہ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
CaLmInG MeLoDy (03-16-2016),Mamin Mirza (03-15-2016)
Lamha e fikar Baja farmaya ap ne....... koshish krain ge asal bar qarar rakh skain ..... khobsorat andaz mai zehan nasheen krwany k liye shukria boht umda tehreer
CaLmInG MeLoDy (03-16-2016),Mamin Mirza (03-15-2016)
بھئی واہ۔ بہت عمدگی سے آپ نے اردو کے آج کے استعمال کو بیان کر دیا۔
میرا تو اپنا یہ حال ہے کہ گوگل سے اردو کے صحیح الفاظ تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ ورنہ دبا دب رومن سے کام چلتا ہے۔ ہاں مگر ایک بات جو شدید نا گوار گزرتی ہے۔ وہ یہ لب و لحجہ۔ کراچی نیوز کاسٹرز تک کا انداز گفتگو دل کو چیر دیتا ہے۔ رہی کو رئی۔ کراچی کو کرانچی۔ حال تو یہ ہے کہ نیوز چینل پر ہندی الفاظ بھی شوق و زوق سے استعمال ہو رہے ہیں ۔ جو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے میڈیا پر بیرونی چینلز کا کس قدر اثر ہے۔ ہماری نمو بی بھی تو۔ جا رہی ہوں کہ جا رئی ۔ کر رہی ہوں کو کر رئی۔
اردو کو اگر اچھے سے بولا جائے تو نہایت خوبصورت لب و لحجے والا انسان معلوم ہوتا ہے بولنے والا۔
بہت عمدو تحریر۔ انداز بیان اور بات سمجھانے کے لیئے عنوان کا اچھا انتخاب۔ بہت شکریہ پوسٹ کرنے کے لیئئے۔
Mamin Mirza (03-16-2016)
نہ چھیڑو ہمیں ہم ستائے ہوئے ہیں
بہت زخم سینے پہ کھائے ہوئے ہیں
یہ لب و لہجے کی بات نہ کرنا۔۔۔ایک لب ہ لہجہ ہی کیا تلفظ۔،املا سب برباد ہوچلا ہے۔اور کراچی والوں پر کونسی پابندی ہے سوشل میڈیاکے استعمال کی۔پر بات یہ ہے کہ کراچی والے اب بھی پہچانےجاتے ہیں اپنے لب و لہجہ کی وجہ سے۔سب سے بڑی مثال میں آپ ہوں۔۔
نمو بی تو خیر اب سدھر گئیں۔۔۔ایویں تنگ،زِچ کرنے کو یہ حرکت کی تھی۔اپنا غصہ نکال رہی تھیں۔اور کوئی تو انھیں ملا نہیں میں معصوم ہی نظر آتی ہوں سو۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا ہوکوئی تو مامن ہی سہی۔
بہت شکریہ پڑھنے،سمجھنے اور سراہنے کا۔
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
wahbohat khoobshabash baita
Mamin Mirza (03-16-2016)
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks