afaq ali (03-03-2016),CaLmInG MeLoDy (02-28-2016),intelligent086 (02-28-2016),Khirman (03-03-2016)
اسلام وعلیکم
امیدِ واثق ہے کہ آپ سب اللہ سائیں کے کرم سے بخیر وعافیت ہونگے۔
اردو ادب کے ماہانہ مقابلے کے اعلان کے ساتھ حاضر ہوں۔
اس ماہ آپ نے مستنصر حسین تارڑ صاحب کی کتاب" منہ ول کعبے" شریف میں سے اپنی پسند کا اقتباس شئیر کرنا ہے۔
قوانین برائے مقابلہ
١: اقتباس اردو اور رومن دونوں رسم الخط میں شئیر کیاجاسکتاہے۔
٢: اقتباس اسی تھریڈ میں پوسٹ کرنا ہے۔
٣: ایک حصہ جوپہلے کسی رکن نے شاملِ مقابلہ کردیا ہو اسے کوئی دوسرا رکن شامل نہیں کرسکتا۔
٤: ایک رُکن ایک بار ہی شریکِ مقابلہ ہوسکتا ہے۔
٥: کسی غلطی کی درستگی کی اجازت ہے،شئیرنگ بدلنے کی نہیں۔
٦: مقابلے کی آخری تاریخ ٢٠ مارچ ٢٠١٦ ہے۔
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
afaq ali (03-03-2016),CaLmInG MeLoDy (02-28-2016),intelligent086 (02-28-2016),Khirman (03-03-2016)
ایک آوارہ گرد کے لئے چاہے وہ ایشیاء میں ہو یا یورپ میں،سب سے ہیجان خیز لمحہ وہ ہوتا ہے جب وہ پیدل چلتے۔۔کسی بس یا کار یا سفر کرتے یکدم شاہراہ کے کنارے آویزاں کسی سنگِ میل کو دیکھتا ہے اور اس پر ایک ایسے شہر کا نام ابھرا ہوا دیکھتا ہے جسے اس نے تاریخ کی کتابوں میں یا تخیل میں ہی دیکھا ہوتا ہے۔۔روم۔۔اتنے کلومیٹر۔۔پیرس۔۔برلن۔۔سٹاک ہوم۔۔بیروت۔۔۔دمشق۔۔اشبیلیہ۔۔۔استنبول۔۔۔گلگت۔۔۔کاشغ ر۔۔۔شی آن۔۔اور وہ ایک عجیب جنسی تلذّذ کی قربت میں سانس لیتی ہوئی ہیجان خیزی میں ان میں سے کسی ایک نام کو سنگِ میل پر درج دیکھ کر اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتا ہے۔۔اور یہ شہر۔۔جس کی جانب میں سفر کرتا تھا،کل خدائی ہر روز پانچ بار اس کی جانب چہرہ کرتی اور جھکتی تھی۔۔اُن میں سے کسی ایک شہر کی جانب کوئی ایک بھی جھکتا نہ تھا تو وہ اُن میں افضل تھا اور اس کے باوجود مجھ پر چنداں اثر نہ ہواکہ میں نے اپنے آپ کو نیوٹرل گئیر میں ڈال رکھا تھا۔۔۔جدہ سے نکلنے والی شاہراہ پر نصف شب کے بعد جب کہ جدہ کی بےرحم روشنیاں پیچھے رہ گئیں تھیں اور ایک بےآباد صحرائی وسعت کی تاریکی کار کے اندر آرہی تھی ایک دوراہا آگیا۔۔شاہراہ تقسیم ہوگئی۔۔سائن بورڈ پر ہدایت کی حروف درج تھے۔۔مکہ مکرمہ۔۔سیدھے چلے جائیے۔۔مدینہ منورہ۔۔بائیں جانب مڑجائیے۔۔البتہ اس مدینہ منّورہ کو زندگی میں پہلی بار ایک سائن بورڈ پر لکھا دیکھ کر میرا نیوٹرل گئیر ڈولنے لگا۔۔ٹوٹنے کو آیا۔۔میراحلق خشک ہوگیااور ماتھے پر پسینہ پھوٹنے لگا۔۔کوئی اور گئیر لگ گیا۔۔میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالااور پھر سے نیوٹرل گئیر میں ڈالا۔اِدھر یا اُدھر؟بڑا کھٹن سوال تھا کہ اِدھر یا اُدھر۔۔شہروں کی ماں کے پاس چلیں یا وہ شہر جو منّور ہے اُدھر کا رُخ کریں۔۔چونکہ ہم نے گھر سے نکلتے ہوئے فیصلہ کرلیاتھا کہ پہلے اِدھر پھر اُدھر۔۔بہت بعد میں یہ کھلا کہ نہیں پہلے تواُدھر۔۔پھر اِدھرلیکن یہ تو بہت بعد میں کھلا۔۔تو فی الحال اِدھر۔۔مجھے علامہ اسد کی کتاب “روڈ ٹو مکہ“ یاد آتی چلی جاتی تھی۔۔اور میں آج روڈ ٹو مکہ پر جاتا تھا۔۔اِدھر کو سفر کرتا مسافر تھا۔۔جو ایک نام کو سائن بورڈ پر دیکھ کر نیوٹرل گئیر کے باوجود ایک چُپ سناٹے میں اِدھر یا اُدھر کی کشتی کے دھاگےالجھتے رہے۔۔ان کا کوئی سرا ملتا نہ تھاکہ یہ اتنے اُلجھے ہوئے تھے۔۔یار پہلے اُدھر ہو آتے چپکے سے۔۔پھر اِدھر بھی آجاتے۔۔اِدھر بھی آجاتے۔۔اِدھر والے کا جو بھی محبوب ہے،وہ پیارا ہے تو اُس کے در پر اگر پہلے دستک دے آتے تو عاشق نے ناراض تو نہیں ہونا تھا۔۔لیکن اُدھر والے کا۔۔سبز گنبد والے کا چونکہ حکم تھا کہ پہلے وہاں جاؤجو مجھ سے عشق کرتا ہے تو ہم اُس کے فرمان کے تابع اِدھر جارہے تھے۔۔یوں کچھ تسلی ہوئی۔۔منہ ول کعبے شریف مستنصر حسین تارڑ
Last edited by Mamin Mirza; 03-02-2016 at 10:20 AM.
afaq ali (03-03-2016),intelligent086 (03-02-2016),Mamin Mirza (03-03-2016)
ایک صحرا میں آپ کو ایک دم ایک ریلوے اسٹیشن نظر آجائےتو آپ کیا محسوس کریں گے۔۔
ایک نخلستان میں۔۔ایک پلیٹ فارم دِکھائی دے جائے۔۔کھجوروں کے جھنڈمیں ایک ریلوےلائن نظر آجائےتو کیا آپ یقین کرسکیں گے۔۔
میں بھی متحیرہوایقین نہ کرسکا۔۔
کہ مدینے کا ریلوے اسٹیشن آگیا تھا۔۔
جہاں ایک زمانے میں مدینے تک ایک ٹرین آتی تھی۔۔ترکوں کی تعمیر کردہ۔۔اور پھر ترکوں کے جبر سےنالاں عربوں کی سربراہی کرتے ہوئے لارنس آف عریبیہ نے ریل کی پٹڑیوں کو اکھارکر تباہ کردیاتھا۔۔
یہ ریلوے اسٹیشن اب دوبارہ اپنی اصلی حالت کے مطابق پھر سے تعمیر کیا جارہا ہے۔۔زنگ آلوداورناکارہ ہوچکی پٹڑیوں پر ان زمانوں کی ریل کے چند ڈبے ابھی تک کھڑے تھے۔۔
اور مجھے اس متروک ریلوے اسٹیشن نے کیسے مسخرکیا۔۔اس کے ماتھے پرمنزل کااعلان کرنے والاایک حرف اب بھی پڑھا جاسکتاتھا۔۔“مدینہ“۔۔
اگرآپ ایک ٹرین میں سفر کررہے ہوں۔۔اورسفرکے دوران ایک اسٹیشن پر وہ ٹرین رکتی ہےاور آپ اپنے ڈبے میں سے سر نکال کر دن کی دھوپ میں یا رات کی سیاہی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کہاں رکے ہیں۔۔یہ کون سا اسٹیشن ہےتو عمارت کے ماتھے پرلکھا“مدینہ“نظرآتا ہے تو اس کےبعد کیا کچھ اور نظر آسکتاہے۔۔
مدینے کا ریلوے اسٹیشن۔۔جہاں اب کوئی گاڑی آتی ہے اور نہ جاتی ہے۔۔
اور ویران پلیٹ فارم پر ایک تنہا مسافر کھڑا ہے۔۔
وہ جا تو کہیں اور رہا تھالیکن عمارت پر “مدینہ “ لکھا نظر آیا تو ٹرین سے اُتر گیا۔۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اے مسافر کیسے آئے ہو؟
تو وہ کہتا ہے کہ ٹرین سے۔۔
اور وہ حیرت سے اور اسے دیوانہ جانتے ہوئے کہتے ہیں۔۔یہ پلیٹ فارم تو ایک مدت سے ویران پڑا ہے۔۔نہ کوئی آیانہ گیا۔۔تم کیسے آگئے۔۔
تو وہ جواب دیتا ہے۔۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میں کیسے آیاہوں۔۔لیکن یہ معلوم ہے کہ آگیاہوں تو اب جانا نہیں چاہتا۔۔
“روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام“
منہ ول کعبے شریف
مستنصر حسین تارڑ
Khirman (03-03-2016),Mamin Mirza (03-03-2016)
تو عرفات باہر ہے۔۔روشن عیاں۔۔آمنے سامنے۔۔دنیاوی حقیقتوں کا سامنا کرتے ہوئے۔۔اورمزدلفہ اندرہے۔۔رات کی تاریکی۔۔اپنے آپ میں گم۔۔اپنا سامنا کرتے ہوئے۔۔اس لمحے مزدلفہ کی شب کی سیاہی میں لاکھوں لوگ میری طرح کھلے آسمان کو تکتے ہوں گے۔۔کچھ عبادت میں مگن۔۔کچھ نیند میں گم۔۔کھلے آسمان تلے پہلی بار فٹ پاتھوں،شاہراہوں،بس اسٹینڈز کے آس پاس،گھاٹیوں اور بلندیوں پر یوں رات گزارتے ہوئے۔۔تو اُن کی کیا کیفیت ہوگی۔۔ُن کے طےشدہ نظریات زندگی گزارنے کے درہم برہم نہیں ہوگئے ہوں گے۔۔عالی شان گھروں،محلات اور قلعوں کے باسیوں کے لئے یہ رات کیاانھیں آسمانوں سے اُتار کر زمین پر لاکرخاک پر خاک نہیں کررہی۔۔کسی ایک بھی فرد کی آج رات کوئی حیثیت نہیں،دنیاوی وقار،شان و شوکت نہیں اور نہ ہی کوئی ایک فرد سراُٹھا کر یہ کہہ سکتا ہے کہ میں تم سے افضل ہوں کہ یہاں سب کے سب ایک ہی سطح پر آچکے ہیں۔۔بےشک لاکھوں لوگ آپ کے ہمسائے ہیں،اس کھلے آسمان تلے آباد ہیں لیکن اس کے باوجود آپ یکسر تنہا ہیں۔۔نہ صرف اکیلے ہیں بلکہ آپ کا کوئی پوسٹل ایڈریس نہیں ہے۔۔آپ بےنشان اور بے پتہ ہیں۔۔یہاں کوئی گلی محلہ نہیں۔۔کوئی اشارہ نہیں کہ یہ فلاں علاقہ ہے۔۔کوئی بازار نہیں،کوئی دیوار،کوئی چھت نہیں۔۔کوئی گھر نہیں تو پتہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔کوئی اگر آپ کو خط لکھے تو کس پتے پر لکھے۔۔جناب تارڑ صاحب۔۔گلی نامعلوم۔۔گھر نامعلوم۔۔بس ایک بلند گوشے میں ریت پر لیٹے ہوئے۔۔شہر مزدلفہ۔۔تو اس پتے پر تو خط پہنچنے سے رہا۔۔یہاں بس ایک ہی خط براہِ راست آپ تک پہنچ جاتا ہےجو کہ بڑے پوسٹ ماسٹر صاحب کی جانب سے بھیجا جاتا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ آپ کہاں ہیں۔۔
منہ ول کعبے شریف
مستنصر حسین تارڑ
Mamin Mirza (03-03-2016)
ایک صاحب کی بے چینی عروج پر ہے... حالت اضطراب میں ہیں...بار بار ناف کے زیریں حصے پر ہاتھ جما کر اپنے آپ کو بے اختیار ہونے سے بچا رہے ہیں... اور ان کے آگے ابھی تین چار متاثرین انہی کی حالت زار میں ہیں تو وہ صاحب اپنے آگے کھڑے امیدوار کی کمر پر ہلکے ہلکے کچوکے دیتے ہیں کہ بابا جلدی کرو... اور وہ بابا جلدی کیسے کریں، ان کے آگے بھی تو دو تین اضطراب کے پیکر پہلو بدلتے ہیں... تو ان بابا صاحب کو شاید گدگدیاں ہوتی تھیں تو جونہی ان کے پیچھے منتظر حاجی بابا ان کی کمر میں کچوکے دیتے تو وہ ذرا جھک سے جاتےتھے... قدرے لہک سے جاتے تھے... بالاخر انہوں نے پلٹ کر کہا "آپ کا کیا خیال ہے، میں یہاں رقص کرنے لیے آیا ہوں جو یوں گدگداتے چلے جا رہے ہیں..."
ایک اور صاحب بھی "ایمرجنسی" میں مبتلا ہیں اور خوش قسمتی سے ان کے اور لبِ بام کے بیچ صرف ایک حاجت مند کھڑے ہیں اور وہ غسل خانے کے تادیر بند آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے آس لگائے کھڑے ہیں... یہ صاحب جو دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کے پیچھے کھڑے ہیں، کچھ زیادہ ہی ایمرجنسی میں مبتلا ہیں تو ان سے منت کرتے ہیں کہ بھائی مجھے پہلے اندر جانے دو... مت پوچھو کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے... ان کی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئے ایک عجیب سی لجاعت آمیز آواز نکالتے ہیں... کہ آآ...ہوہو...ڈن شان...الحمدللہ... کہ دونوں کی زبانیں الگ الگ ہیں... کہہ یہ رہے ہیں کہ بھائی جان ... ہم ایک امت ہیں... ایک بدن ہیں اور بدن کے جس حصے میں درد ہوتا ہے تو پوری امت کو درد ہوتا ہے... تو یہ درد سہا نہیں جا رہا۔ آپ مہربانی کرو... اپنی باری مجھے دے دو، میں سخت تکلیف میں مبتلا ہوں... یہ مصیبت یہیں کہیں خارج نہ ہو جائے... مجھے پہلے جانے دو، آپ کی مہربانی!
اور وہ صاحب جو غسل خانے کے آہنی دروازے پر ہاتھ رکھے اس کے کھلنے کے منتظر ہیں، ان کا ہاتھ ٹھوڑی سے ہٹا کر کہتے ہیں ،اور اپنی زبان میں کہتے ہیں "آہاآہا...ہوہو...سبحان للہ"
یعنی میں جو اتنی دیر سے کھڑا ہوں اور اپنے آپ کو روکے ہوئے ہوں... اپنی باری تمہیں دے دوں... گھاس چر گئے ہو کیا... میں امت کے لیے اتنی بڑی قربانی نہیں دے سکتا...
ایک اور حاجت مند... اور اس وقوعے کے چشم دید گواہ یوسف شاہ صاحب ہیں جو ہمارے ہم سفر تھے... برما میں پاکستان کے سفیر تھے اور پٹھان ہونے کے ناطت بُوباس سے عاری نہایت زندہ دل اور ہنس مکھ تھے۔
ان کا پسندیدہ موضوع بھی منیٰ کے غسل خانے تھے...
بقول ان کے ایک صاحب اپنی ناف کے زیریں حصے کو دونوں ہاتھوں سے کنٹرول کرتے ہوئے قطار میں اپنے آگے کھڑے حضرت سے درخواست کرتے ہیں کہ للہ... کرم کیجیے، مجھے پہلے جانے دیجیے کہ روانی آب ہوا ہی چاہتی ہے...
اور وہ صاحب پلٹ کر کہتے ہیں... آپ کے ہاں تو ہو ہی چاہتی ہے... ہمارے ہاں اس کا آغاز ہو چکا ہے... اور قطرہ قطرہ دریا مے شود ہوا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔منیٰ میں یہ واحد شکایت تھی...
اگرچہ ہم نے کچھ تجربے اور کچھ ادھر ادھرتانک جھانک کر کے جان لیا تھا کہ اگر ہم نزدیکی پاکستان ہاؤس کے پہریدار سے نظر بچا ئے وہاں کے غسل خانوں تک پہنچ جائیں تو فراغت نسبتاً آسانی سے ہو سکتی تھی
منہ ول کعبے شریف سے اقتباس
مستنصر حسین تارڑ
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومنحوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن
Mamin Mirza (03-09-2016)
جدید جدّہ میں میں نے اپنے قیام کے دوران کسی ایک فرد کو.. کہیں بھی.. سمندر کے کنارے پکنک مناتے ہوئے.. کسی ریستوران میں.. کسی شاپنگ مال میں..
کہیں بھی کسی ایک فرد کو کوئی کتاب پڑھتے نہیں دیکھا.. اخبار پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا..
یہ قبیہ رواج، پڑھنے پڑھانے کا کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔اور جدّہ کے پورے طول و عرض میں کہیں بھی کوئی باقاعدہ قسم کا پارک یا باغ نہیں ہے۔
پارک میں چونکہ نسان، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور فراری وغیرہ میں بیٹھ کر سیر نہیں کی جا سکتی اس لیے پارک کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
اقتباس "منہ ول کعبے شریف" ــــ مستنصر حسین تارڑ
Politician are the same all over. They promise to bild a bridge even where there is no river.
Nikita Khurshchev
Thread Closed........................!!!
!میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے۔۔۔۔
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks