احمد عقیل روبی
ہاورڈ فاسٹ 11نومبر1914ء کو امریکہ کے شہر نیویارک میں پیدا ہوا۔ یہودی تھا۔ ماں (IDA) برطانیہ سے ہجرت کر کے نیویارک گئی تھی اور باپ یوکرائن کا رہنے والا تھا۔ اس کا نامBarney Fastorskyتھا۔ نیویارک میں آیا تو Fastorsky کو مختصر کر کے Fast بنا لیا، اسی مناسبت سے ہاورڈ FAST کہلاتا ہے۔ اپنی سوانحِ عمریBeing Red میں ہاورڈ فاسٹ اپنے گھریلو حالات کے بارے میں لکھتا ہے: ’’ہم بہت غریب تھے۔ مگر میری ماں نے کبھی ہمیں محسوس نہیں ہونے دیا۔ 14سال کی عمر ہی میں میرے باپ نے لوہے کی فیکٹری میں مزدوری شروع کر دی تھی۔ پھر میرے باپ نے نیویارک سٹی میں چلنے والی کیبل کار میں نوکری کر لی۔ پھر ملبوسات بنانے والی فیکٹری میں کام شروع کر دیا۔ اسے وہاں 40ڈالرز ہفتہ وار ملتے تھے۔ میری ماں کپڑے سی کر، سوئٹر بُن کر گھر کا خرچہ چلاتی تھی۔ برتن دھوتی اور مجھے اچھی اچھی کہانیاں سناتی۔ اس کا لہجہ اس قدر دلچسپ، رنگین اور دل پذیر تھا کہ اب بھی جب میں یاد کرتا ہوں تو موت کا خوف میرے دل سے غائب ہو جاتا ہے۔‘‘ سپارٹیکس ہاورڈ فاسٹ کا نمائندہ شاہکار ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اور نقادانِ فن اس ناول کی تعریف میں بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ اس ناول کی اشاعت کے بعد جب ہاورڈ فاسٹ پیرس پہنچا تو مصور پبلونرو دانے گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا۔ اسے اپنی ایک Painting پیش کی اور ایک نظم لکھ کر اسے خراج تحسین پیش کیا۔سپارٹیکس حال اور ماضی میں لکھا ہوا ناول ہے۔ اشرافیہ کلاس کے سات معزز افراد ایسے واقعات اور کہانیاں سناتے ہیں جن سے سپارٹیکس کی داستان مکمل سامنے آتی ہے۔ کراسس باتیاتس، کائیس اور سائیسرو، سپارٹیکس کے بارے میں واقعات سناتے رہتے ہیں۔ اور سپارٹیکس کی زندگی کے Flashes ہمارے سامنے چلتے رہتے ہیں اور سپارٹیکس ہمارے دل و دماغ میں اپنا گھر بناتا رہتا ہے۔ سپارٹیکس ایک مصری غلام تھا جو کرو خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کا مطلب مصری زبان میں جانور ہے۔ اسے یونان کے شہر تھینز سے خریدا گیا تھا۔ آہنی زنجیروں میں جکڑا ہوا یہ غلام سورج کی دھوپ میں جل کر بھورے رنگ کا ہو گیا تھا۔ اس کا سارا بدن کوڑے کھا کھا کر پتھر یلا ہو چکا تھا۔ زنجیروں کا بوجھ اس قدر تھا کہ سیدھا ہو کر چلنا مشکل تھا۔ اس کی گردن موٹی تھی مگر گردن پر زنجیر کی رگڑ کی وجہ سے زخم اور پھوڑے بن گئے تھے۔ بھر بھرے ہونٹ، منہ چوڑا، مسکراہٹ کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ غلاموں کے ساتھ چٹانوں پر پیٹ رگڑ رگڑ کر چلتا تھا جن کے بازوئوں اور گھٹنوں پر داغ پڑ چکے تھے۔ وہ دن بھر کام کرتے تھے پھر انہیں بیرک میں دھکیل دیا جاتا تھا اور زنجیریں کھول دی جاتی تھیں۔ سارے دن کی محنت کا صلہ صرف ایک پیالہ خوراک اور آدھی چھاگل پانی دیا جاتا۔ پانی اس قدر کم تھا کہ آہستہ آہستہ ان کے گردے فیل ہو جاتے تھے اور جب وہ مر جاتے تو انہیں صحرا تو میں پھینک دیا جاتا تھا۔ بیرک میں بدبو اور سڑانڈ بہت زیادہ ہوتی تھی لیکن غلام جی متلانے پر قے بھی نہیں کرتے تھے‘ انہیں خوف تھا کہ قے کرنے سے کہیں ان کے معدے میں ایک اونس خوراک کم نہ ہو جائے۔ سپارٹیکس بیرک میں بیٹھا سوچتا رہتا تھا۔ وہ دوسرے غلاموں جیسا نہیں تھا۔ وہ پتھر تھا مگر کہیں نہ کہیں اس میں رحم کا جذبہ موجود تھا جس کی وجہ سے وہ دوسرے غلاموں کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا۔ دوسرے سارے غلام اسے ’’باپ‘‘ کے نام سے بلاتے تھے۔ جب کوئی غلام اسے کہتا:’’ بے باپ !یہ کیسا دوزخ ہے؟‘‘ تو سپارٹیکس جواب دیتا:’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ سپارٹیکس اب کان سے باہر کی دنیا میں آتا ہے اور باتیاتس اسے خرید کر اپنے گلیڈیٹرز میں شامل کر لیتا ہے، اسے زندگی کی ساری آسائشیں ملتی ہیں اور اب اس کا کام قتل کرنا ہے۔ اسے اکھاڑے میں بھیجا جاتا ہے اور اسے اپنے مدِ مقابل کو قتل کرنا ہے اور لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ یہاں سپارٹیکس نے اپنی اور اپنے غلام ساتھیوں کی آزادی کی خاطر جنگ لڑنے کا منصوبہ بنایا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ اب وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا۔ اس نے یہ بات اپنے غلام ساتھیوں کو اکھٹا کر کے کہہ دی ۔ اس کے ایک ساتھی نے پوچھا: ’’باپ تو پھر ہم کیا کریں۔‘‘ ’’تم ابھی بھی الگ الگ ہو جائو، کیا کرنا ہے یہ میں تمہیں پھر بتلائوں گا۔‘‘ان غلاموں میں وہ جرمن عورت، ورینیا بھی شامل تھی جو سپارٹیکس کے آقا باتیاتس نے اسے بیوی کے طور پر بخشی تھی اور جو سپارٹیکس سے شدید محبت کرتی تھی۔ سپارٹیکس نے ایک منصوبہ بندی کے تحت تمام غلاموں اور گلیڈیٹرز کو پیغام پہنچایا اور پھر ایک وقت مقررہ پر سب نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ سپارٹیکس کو اپنا کمانڈر بنا لیا اور اپنے اپنے تربیتی اداروں سے باہر آ گئے۔ رومن سپاہیوں سے مقابلہ کیا ،لڑائی کے فن میں وہ سپاہیوں سے زیادہ ماہر تھے۔ گلی گلی لڑائیاں ہوئیں اور سارے روم میں لاشیں سڑتی رہیں۔ غلاموں نے سرکاری اسلحہ خانوں کے تالے توڑے اور اسلحہ قبضے میں کر لیا اور پھر وہ شہر چھوڑ کر پہاڑی پر چڑھنے لگے۔ ورینیا، سپارٹیکس کے ساتھ تھی۔ وہ سب سورج کی روشنی میں ایک گائوں کے میدان میں بیٹھے تھے۔ سپارٹیکس کے ایک ساتھی نے کہا: ’’اب ہم کہاں جائیں گے، ہر جگہ یہی غلامانہ نظام ہے؟‘‘ سپارٹیکس نے کہا:’’ہم ہر جگہ جائیں گے، غلاموں کو آزادی دلائیں گے۔ اپنی فوج میں شامل کریں گے۔ رومن فوج کا مقابلہ کریں گے۔ یہ خدا کو معلوم ہے کہ فتح ہماری ہو گی یا رومن فوج کی۔‘‘ سپارٹیکس نے مزید کہا:’’ہم ایک ایسی دنیا بنائیں گے جہاں نہ کوئی غلام ہو گا، نہ آقا، جس چیز پر ہم قبضہ کریں گے وہ سب کی مشترک ہوگی۔ بیوی کے علاوہ کوئی عورت پاس نہیں رکھیں گے۔ عورت کو مرد کے برابر حیثیت حاصل ہوگی۔روم سے سینٹ نے فوجیوں کے دستے کا پورا بھیجے جہاں سپارٹیکس غلاموں کی فوج لے کر موجود تھا، مگر سپارٹیکس نے ان کا خاتمہ کر دیا۔ دوبارہ بھاری فوج بھیجی مگر ہزار غلاموں نے دس دس کا گروپ بنا کر ان کا خاتمہ کر دیا۔ فوجیوں کے ہتھیار چھینے، ان کے جسم سے کپڑے اتارے اور چھکڑوں پر لاد کر لے گئے۔ صرف ایک سپاہی زندہ رکھا اور اسے کہا:’’جائوسینٹ کے پاس جا کر میرا پیغام دو کہ تم نے ہمارے خلاف فوج بھیجی، ہم نے اسے تباہ کر دیا، ہم غلام ہیں، جنہیں تم بولنے والے اوزار کہتے ہو، دنیا تم سے بیزار ہو چکی ہے۔ دنیا کوڑوں کی آواز سے بیزار ہو چکی ہے جو تم ہم غلاموں پر برساتے ہو، پہلے سب انسان برابر تھے مگر تم نے انہیں آقا اور غلاموں میں تقسیم کر دیا۔ہم تم سے بہتر انسان ہیں۔ ہم میں وہ سب کچھ ہے جو ایک اچھے انسان میں ہونا چاہیے۔‘‘ سپارٹیکس نے چار سا ل تک رومن حکومت کا مقابلہ کیا اور پھر 70 ہزار رومن فوجیوں نے سپارٹیکس کی محدود فوج کو گھیرے میں لے لیا اور اس کی فوج کا خاتمہ کر دیا۔ سپارٹیکس نے موت قریب دیکھی تو اس نے آخری احکامات اپنی نوکرانی کو کچھ اس طرح جاری کئے:’’میز پر تھیلوں کی قطار ہے۔ ہر تھیلے میں میرے ہر غلام کے لیے آزاد ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے، ہر تھیلے میں20ہزار سیٹرز (رومن سکہ )ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں یہ تھیلے انہیں دے دو۔ انہیں کہو فوراً چلے جائیں۔‘‘ اور پھر الماری سے اپنی ہسپانوی تلوار نکالی اور اپنے آپ کو قتل کرنے کے خیال پر ایک مسکراہٹ اس کے لبوں پر دوڑ گئی۔ سپارٹیکس مرا نہیں اب تک زندہ ہے۔ ’’جب تک انسان محنت کرتا رہے گا اور دوسرا انسان اس کی محنت کا پھل اور منافع چھینتا رہے گا۔ سپارٹیکس زندہ رہے گا، کبھی سرگوشیوں میں اور کبھی بلند احتجاج میں۔‘
Bookmarks