چاروں طرف دُکھ ہی دُکھ ہیں


ایک بھرپور اور پر سکون زندگی گزارنے کے باوجود کوئی چیزہے جو اندر سے ابھی تک کھٹک رہی ہے اور مجھے تنگ کرتی رہتی ہے ۔جب کبھی میں ا س کا تجزیہ کرنے بیٹھتی ہوںکہ کیا ایسی تشنگی ہے۔کیا ایسا دکھ ہے جو میرے اندر پلتا رہتا ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ شاید میرے اندر کا حساس انسان زندہ ہے جو کبھی مجھے خوش نہیں رہنے دیتا اور جو چاروںا طراف پھیلے دکھ اور مصائب کو دیکھ کر صرف اپنے حصے میں آنے والے سکھ اور آسائشوں پر کبھی مطمئن اور پرسکون نہیں رہتا ۔ہم لوگ کبھی سکھی نہیں رہ سکتے کیونکہ ہمارے چاروں طرف دکھ ہی دکھ ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہو اکہ میرے میاں سعد اور ریما سمیت ہم سب میری بہن رعنا کے گھر اُسے ملنے کیلئے ڈیفنس جا رہے تھے ۔ڈیفنس کی داخلی سڑک پر اسکوئر کے ساتھ ایک کافی شاپ بنی ہوئی ہے۔میری بہن رعنا چونکہ پان بہت شوق سے کھاتی ہیں اسی لیے ہم پان لینے کیلئے وہاں پر رُکے۔سعد ہم سب کو گاڑی میں بٹھا کر پان لینے چلے گئے ۔اُس وقت وہاں پر کئی دوسری گاڑیاں بھی ٹھہری ہوئی تھیں جن میں سے ایک نئی پجارو گاڑی نمایاں تھی۔پجارو اُن دنوں پاکستان میں نئی نئی آئی تھی اور اس کی کافی دھوم تھی۔پجارو کی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک شخص اپنی کہنی باہر نکالے بیٹھا ہواتھا‘اس کے ہمراہ دو تین خواتین بھی تھیں ‘شاید ان لوگوں نے کسی چیز کا آرڈر دے رکھا تھا۔اسی اثناء میںکوئی دس گیارہ برس کا بچہ ٹرے میں کافی کے تین چار مگ رکھے دکان کے اندر سے نکلا اور سیدھا پجارو گاڑی کی طرف چل پڑا ۔ڈرائیونگ سیٹ کے قریب پہنچ کر ٹرے کو تھوڑا سا اونچا کرتے ہوئے اُس نے آواز دی۔ صاب جی کافی لیجئے۔چونکہ اس شخص کی کہنی باہر نکلی ہوئی تھی اسی لئے جیسے ہی اس نے اپنی کہنی کو حرکت دی تو وہ کافی کے ٹرے سے ٹکرائی اور گرما گرم کافی ساری کی ساری بچے کے جسم پر گر گئی۔یہ منظر دیکھتے ہی میرا برا حال ہو گیا اور ریما سمیت ہم سب تڑپ کر رہ گئے۔ مگروہ صاحب بے حس وحرکت اپنی گاڑی کے اندر بیٹھے رہے‘یہ منظر میری برداشت سے باہر تھا ۔ سعد پان لے کر گاڑی کے اندر واپس آچکے تھے اوروہ سارا ماجرہ دیکھ رہے تھے‘اسی لئے میرے ارادوں کو بھانپتے ہی سعد نے مجھے یہ کہہ کر روک دیا کہ اماں آپ مت دخل اندازی کریں کہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔خیر اُس وقت تو ہم سب وہاں سے چل پڑے لیکن میں سارا راستہ اداس رہی اور سعد سے کہا کہ مجھے رات کو نیند نہیں آئے گی۔ پتہ نہیں دکاندار اس بچے کو ڈاکٹر کو دکھاتا بھی ہے کہ نہیں۔کہیں اسے نوکری سے ہی نہ نکال دے یا اس کی تنخواہ میںسے پیسے نہ کاٹ دے ۔میں ریما کے ہمراہ واپس کافی شاپ پہنچی اور دکاندار سے کہا کہ مجھے بتائیے کہ وہ بچہ کہاں ہے جس پر کافی گری تھی۔کیاآپ نے اسے ڈاکٹر کو دکھایا؟۔کیا آپ اس کی تنخواہ سے کافی کے پیسے تو نہیں کاٹیں گے؟۔دکاندار مطمئن ہو کر بولا کہ آپ فکر نہ کیجئے ہم اپنے اسٹاف کا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہمارے پاس کتھا موجود تھا۔ہم نے اس لڑکے کے جسم پر اس کا لیپ کر دیا ہے اور بہت جلد وہ ٹھیک ہوجائے گا۔لڑکا آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے لہٰذا آپ بے فکر ہو کر گھر جائیے ۔ لڑکے کو دیکھنے کے بعد مجھے سکون کی نیند آئی۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جو بظاہر بڑے نہیں ہیں لیکن اگر یہ کسی حساس انسان کو دکھائی دیں تو وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ انور کی ماںسارہ جو میرے ہاں آنے سے پہلے ہمارے پڑوس میں ایک ڈاکٹر صاحب کے گھر کام کاج کرنے کیلئے آتی تھی۔سارہ کے میاں نے جب دوسری شادی کر لی تو اس بے چاری کو بچوں سمیت گھر سے باہر نکال دیا۔مجبوراً وہ اپنے چار بچوں کو لے کر ہمارے پڑوس والے ڈاکٹر صاحب کے در پر آگئی۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے مجھے کہا کہ آپ کے گھر میں کوارٹر موجو دہے ‘آپ اگر چاہیں تو اسے اپنے پاس رکھ لیں۔میں سارہ کو اپنے پاس لے آئی ۔سارہ اور اس کی بڑی بیٹی انور نے میرا گھر سنبھال لیا اور بچوں کا بھی خاص خیال رکھا ۔سارہ کا خاوند جب اس سے ملنے کیلئے آیا کرتا تو طمطراق کے ساتھ جھگڑے کیا کرتا تھا۔ایک بار جب وہ آیا تو میاں بیوی کے درمیان تکرار اورچیخ و پکار کی آواز سن کر میں وہاں پہنچی تو دیکھا کہ وہ اپنی بیوی کو مار رہا تھا۔مجھے دیکھتے ہی وہ دکھیاری عورت کہنے لگی۔دیکھو بی بی میرا میاں شادیاں بھی کرتاہے‘میرے پیسے بھی کھاتا ہے اور مجھے مارتا بھی ہے۔یہ منظر دیکھ کر مجھے پتہ نہیں کیا ہو ا کہ اس مرد کے منہ پر ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا‘جس کے بعد وہ وہاں سے چلا گیا۔ (عظمیٰ گیلانی کی کتاب ’’جو ہم پہ گزری‘‘سے اقتباس)