اظہر ادیب
دھواں زندگی کی علامت ہے۔ کسی صحرا میں دور سے دھواں اٹھتا دکھائی دے تو یہ اس بات کااشارہ ہوتا ہے کہ کوئی قافلہ خیمہ زن ہے یا پھر جہاں سے دھواں اُٹھ رہا ہو وہ صحرا کا کنارہ بنا ہوتا ہے اور اس کنارے پر آباد بستی تھکے ہارے مسافر کو زندگی کی طرف قدم بڑھانے کا نیا ولولہ بخش رہی ہوتی ہے۔ دھواں اوپر کی طرف پرواز کرتا ہے اور دیکھنے والے کی سوچ کو اپنے ہمراہ بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ہوا چل رہی ہو تو دھواں بادِنما کا کام بھی دیتا ہے اور ہوا کے رُخ کے بارے میں ہمیں بتاتا ہے اور آج کے دور میں ہوا کے رخ کی پہچا ن اشد ضروری ہے۔ اس پہچان کے بغیر جان، مال، عزت، آبرو کسی بھی چیز کے تحفظ کی ضمانت نہیں مل سکتی۔ ایک زمانہ تھا جب گیانی دھونی مار کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنے خیالات کا ہاتھ دھوئیں کے ہاتھ میں تھما کر ایک نہ ایک دن منزل تک پہنچ جاتے تھے۔ عہدِ نو کے انسان نے گیان دھیان کے معاملے میں بھی نئی راہ نکال لی ہے۔ چنانچہ اب ہر گیانی اپنی دھونی ایک چھوٹی سی ڈبیہ میں بند کیے جیب میں لیے پھرتا ہے اور جب جی چاہتا ہے وہ اس ڈبیہ میں سے ایک سفید براق سلائی سی نکال کر سلگا لیتا ہے اور گیان دھیان میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے ڈاکٹروں کی نظر میں سگریٹ نوشی مضرِ صحت ہو (اگرچہ یہ مشورہ دینے والے خود دھڑا دھڑ سگریٹ پھونکے چلے جاتے ہیں) لیکن یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سگریٹ کی وجہ سے بعض معاملات میں انسان خود کفیل ہو جاتا ہے۔ سفر کے دوران کسی ہمسفر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ لیکن سگریٹ ہو تو یہ کمی محسوس نہیں ہوتی اور سگریٹ بہترین ہمراہی کا کردار ادا کرتا ہے۔ آدمی گھنٹوں بغیر کسی سے بات کیے سفر کرتا چلا جاتا ہے اور اسے کسی بھی لمحے تنہائی کا احساس نہیں ہونے پاتا۔ جدید تہذیب نے ہم پر بے شمار آہنی خول چڑھا دیئے ہیں۔ اب ہم سفر کرتے ہوئے اپنے پہلو میں بیٹھے شخص سے بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اگر جی چاہتا ہے تب بھی سوچتے ہیں کہ بلا سبب کیا کسی کو مخاطب کیا جائے۔ سوچا جائے تو یہ بھی ذہنی غلامی کی ایک علامت ہے۔ کیونکہ یہ سمندر پار کی روایت ہے کہ جب تک دو کے درمیان تیسرا تعارف کرانے والا نہ ہو وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ ایسے ماحول میں سگریٹ اس تیسرے کا کردار ادا کرتا ہے اور ہم جیب سے سگریٹ نکال کر بلا تکلف اپنے ہمسفر سے ماچس طلب کرتے ہیںیا اسے سگریٹ کی پیشکش کرتے ہیں اور یوں تکلف کا آہنی خول اس کاغذی پیکر کے ایک ہی وار سے پرزے پرزے ہو کر بکھر جاتا ہے اور ہمارے درمیان سے حجابات اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ حقہ نوشی بخیلی کی علامت ہے کیونکہ حقہ نوش دو پیسے کے تمباکو اور چند کوئلوں سے گھنٹوں لوگوں کو بے وقوف بناتا رہتا ہے اور ہر آنے والے کو اپنے غلیظ منہ سے نکالی ہوئی جھوٹی نے تھما دیتا ہے۔ اب چاہے کسی کو کتنی ہی کراہت محسوس ہو رہی ہو وہ اخلاق کے تقاضوں سے مجبور ہے کہ اس جھوٹی مکر وہ، بد شکل اور میلی کچیلی نے کو منہ میں لے اور موصوف کے تمباکو اور حقے کی بے جا تعریف کر ے۔ جبکہ سگریٹ نوشی فیاضی کا سبق دیتی ہے۔ آپ مانگنے والے کو ہمیشہ ان چھوا، چاندنی کے غلاف میں لپٹا مکمل سگریٹ دیتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ پھر واپس بھی نہیں لیتے۔ جو لوگ سگریٹ نہیں پیتے انہیں کوئی کام نہ ہو تو ان کے لیے وقت کاٹنا دوبھر ہو جاتا ہے جبکہ سگریٹ نوش ایسے میں سگریٹ سلگاتا ہے اور دھوئیں کے مرغولے بنا بنا کر فضا میں ایک دوسرے کا تعاقب کرنے کے لیے چھوڑتا رہتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ کھیل ہے جو سگریٹ نوش کو نہ صرف بوریت سے بچاتا ہے بلکہ اداسیوں کو اس کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ دنیا کے بے شمار حسین مناظر ایسے ہیں جنہیں ہم نے ٹی وی پر سگریٹ کے اشتہارات کی وجہ سے دیکھا ہے۔ یوں سگریٹ نے جام جہاں نما کا کردار بھی ادا کیا ہے۔