شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلاب
چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاببناتِ شہر کی پژمردگی وہ کیا جانےبہم ہر آن جسے ہوں، بدن بدن کے گلابملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہگراں بہا ہیں اُسی فکرِ پر فتن کے گلابسخن میں جس کے بھی اُمڈی ریا کی صنّاعیہر ایک سمت سے برسے اُسی پہ دَھن کے گلابیہاں جو قصر نشیں ہے، یہ جان لے کہ اُسےنظر نہ آئیں گے ماجد، تجھ ایسے بن کے گلاب٭٭٭
Bookmarks