دھڑکتی گونجتی اِک خامشی سی شہر میں ہے
پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہےلب و زباں پہ نہیں ہے، نظر نظر میں تو ہےکوئی تو بات ہے جو اَن کہی سی شہر میں ہےچھپا سکے نہ جسے کوئی بھی اَپَھل جوڑاکچھ اِس طرح کی حزیں بیدلی سی شہر میں ہےجھٹک رہے ہوں جسے آہوانِ رم خوردہوفورِ خوف میں وہ کھلبلی سی شہر میں ہےہُوا جو اُس کی خبر بھی ہے اور خبر بھی نہیںچہار سُو یہی ناآگہی سی شہر میں ہےدہک رہے ہیں گلابوں سے بام و در ماجدجو آنچ میں ہو وہی تازگی سی شہر میں ہے٭٭٭
Bookmarks