بہانہ منتظر ہوگا
وفا کی ابتدا سے ہی
یہی دستور ہے اُس کا
اُسے ملنے بلاؤ جب
وہ وعدہ کر تو لیتی ہے
وہ قسمیں کھا تو لیتی ہے
مگر ملنے نہیں آتی
اُسے اچھا نہیں لگتا
کوئی وعدہ وفا کرنا
وہ ہنس کر توڑ دیتی ہے
سبھی قسمیں محبت کی
اُٹھی ہے دل میں جو خواہش
اُسے پھر آج ملنے کی
عجب سوچوں نے گھیرا ہے
بُلانے سے ذرا پہلے
دھڑکتا جا رہا ہے دِل
مجھے معلوم ہے شاید
اُسے ملنا جو چاہوں تو
بہانہ منتظر ہو گا
٭٭٭
Bookmarks