Sorry


تمہیں اِحساس ہے اِس کا
اگر کوئی جان سے پیارا
اچانک پھیر لے نظریں
تو کیا دِل پر گزرتی ہے
کچھ ایسے دُکھ سے میں بھی
جون کی چوبیسویں *تاریخ کی
اُس رات گزرا تھا
کسی لمحے نہ سویا تھا
ہزاروں اشک رویا تھا
مرے بستر کی سہمی سلوٹوں پر
اشک تھے حیرت زدہ میرے
مری وہ سسکیاں، آئیں
جو اُس شب دِل سے نکلی تھیں
مرے کمرے کی دیواروں پہ
اپنا سر پٹختی تھیں
مرے کمرے کی روتی چھت کی
بھیگی آنکھوں سے وحشت
لہو اُس شب ٹپکتی تھی
عجب اِک ہُو کا عالم تھا
تمہیں اِس سے غرض ہی کیا
یہ باتیں دِل کی باتیں ہیں
جو دِل والے سمجھتے ہیں
مرے اشکوں، مری اُن سسکیوں، آہوں کی
بس اتنی سی قیمت ہے
ترا اِک فون کرنا اور مجھے روتے ہوئے کہنا
صفیؔ Sorry…
فقط Sorry…
اگرچہ لفظ چھوٹا ہے، مگر یوں ہے
ترے ہونٹوں سے نکلا ہے
اَرے یہ ہونٹ جو مجھ کو …
مَیں اِن کی لاج رکھتا ہوں
چلو مَیں مان جاتا ہوں
وگرنہ تم یقیں مانو
مری اُس رات کا دُکھ تو
تری Sorry پہ ہے بھاری … بہت بھاری
* 24 جون 2006ء
٭٭٭