Too Late
میں ناں کہتا تھا جو مجھ سے بچھڑو گے تو مر جاؤں گا
اَب آنکھوں میں آنسو کیسے، اَب ہاتھوں کا مَلنا کیسا
کچھ تو بولو سہی
اے مرے دیس کے زندہ دل باسیو!
سر اٹھاؤ ذرا کچھ تو بولو سہی
کب تلک پیسو گے ظلم کی چکّیاں
کب تلک دیکھ پاؤ گے محرومیاں
گرد آلود ہے دیس کی سب فضا
سانس لینا بھی دوبھر یہاں اَب ہوا
حال سڑکوں کا اَبتر سے اَبتر ہوا
کان پھٹ جائیں گے سن کے شام و سحر
شور کرتی ہوئی گاڑیوں کی صدا
ایسے پھیلی ہوئی ہے غلاظت یہاں
پھوٹ پڑتی ہے روز اِک اَنوکھی وَبا
لے کے ڈوبیں گی اِک دن مرے دیس کو
اِن وزیروں مشیروں کی نادانیاں
کھا گئیں دیس کے صاف ماحول کو
چند مردہ ضمیروں کی من مانیاں
شہروں میں پینے کو صاف پانی نہیں
کیا ہمیں اَب بھی کچھ شرم آنی نہیں
اشک کب تک بہاؤ گے تنہائی میں
کب تلک دیکھو گے اپنی بربادیاں
اِس سے پہلے کہ لقمہ اَجل کا بنو
اِس سے پہلے لہو تھوکنے سب لگو
اَے مرے دیس کے زندہ دِل باسیو!
آنکھ کھولو ذرا کچھ تو دیکھو سہی
سر اٹھاؤ ذرا کچھ تو بولو سہی
٭٭٭
Bookmarks