کئی اور دکھ ہیں مجھ کو
یہ جو چاہتوں کے سپنے
مری آنکھ میں مرے ہیں
کئی نقش اُن کے آخر
مرے دِل میں رہ گئے ہیں
یہ کدورتوں کے گھاؤ
مَیں کہاں تلک بھلاؤں
اِنہی کوششوں میں اِک دن
کہیں جان سے نہ جاؤں
کبھی عدلیہ پہ حملے
کبھی مسجدوں میں جھگڑے
کبھی خون کی تجارت
کبھی عصمتوں کے سودے
کہیں حسرتوں کی بولی
کہیں خواب ٹوٹتے ہیں
کہیں مفلسوں کے چہرے
کوئی راہ ڈھونڈتے ہیں
کبھی نِکہتوں کے چرچے
کبھی بولیاں گلوں کی
ہمیں مار دیں گی آخر
یہ عداوتیں دِلوں کی
ہمیں لے کے بہہ رہا ہے
یہ عداوتوں کا دھارا
ہمیں موت سے گلہ کیوں
ہمیں زندگی نے مارا
انہیں کیا کریں مسیحا
وہ جو دل ہوئے ہیں روگی
جنہیں نفرتوں نے مارا
اُنہیں کیا بتائیں جوگی
تمہیں کیا وفا ملے گی
کئی اور کام مجھ کو
ترا غم بھی غم ہے لیکن
کئی اور دُکھ ہیں مجھ کو
٭٭٭
Bookmarks