ہم ملے کب تھے


کٹ رہا تھا یونہی زندگی کا سفر
ایک دن مل گئے ہم کسی موڑ پر
اِک حسیں شام ڈھلنے کو تیار تھی
ہنس رہی تھی سیہ رات سر پر کھڑی
میں بھی لمبی مسافت سے ہلکان تھا
اور وہ بھی تھکن سے بہت چور تھی
آبلہ پا تھے دونوں کٹھن تھا سفر
اُس گھڑی ہم نے یہ فیصلہ کر لیا
اِک سرائے میں شب کر لی جائے بسر
وہ بھی تیار تھی، مَیں بھی تیار تھا
شب گزاری کو ہم نے یہ طے کر لیا
کوئی مضمون ہو، چھیڑ لیں کوئی بات
وہ دسمبر کی شاید کوئی رات تھی
چھیڑ لی ہم نے فوراً ہی موسم کی بات
باتوں باتوں میں یوں بے تکلف ہوئے
جیسے برسوں کی اپنی شناسائی ہو
ایک لمحے کو لگنے لگا یوں کہ وہ
جیسے دنیا میں میرے لیے آئی ہو
رات پھر رات تھی وہ بھی اِک رات تھی
باتوں باتوں میں شب اپنی کٹ ہی گئی
صبح دم اَب جو ہم اُٹھ کے چلنے لگے
اِک ملاقات میں جانے کیا کھو دیا
راستے پیر کیونکر پکڑنے لگے
ہم جدا راستوں کے مسافر صفیؔ
عمر بھر ساتھ چلتے یہ قسمت نہ تھی
ایک پل کا تعلق، تعلق نہ تھا
اِک گھڑی کی رفاقت، محبت نہ تھی
راستے بھی جدا، منزلیں بھی الگ
اِس لیے لب پہ اپنے گلے ہی نہیں
کیا ملن کی خوشی کیا جدائی کا دکھ
اے دِلِ بے خبر ہم ملے ہی نہیں
٭٭٭