حال ہم اپنا جو لوگوں پہ عیاں کر دیتے
سانس لینا بھی ہمارا وہ گراں کر دیتےڈھونڈنے وہ مجھے آیا ہی نہیں ہے ورنہرہنمائی مرے قدموں کے نشاں کر دیتےشدتِ غم سے یہ ممکن تھا پگھل جاتا وہغم ترا گر کسی پتھر سے بیاں کر دیتےغم کے موسم میں بُخارات کی صورت آنسودِل سے اٹھتے تو پھر آنکھوں میں دھواں کر دیتےہم نے اچھا ہی کیا اشک سنبھالے ورنہساتھ دنیا کو بھی ہم گریہ کناں کر دیتے٭٭٭
Bookmarks