اگرچہ بانٹی ہیں ہم نے محبتیں کیا کیا

ہمیں ملی ہیں یہاں پھر بھی نفرتیں کیا کیا
ہمارے ساتھ بھی چلتے تھے قافلے کیسے
کبھی نصیب تھیں ہم کو رفاقتیں کیا کیا
تمہارے ہوتے بھی سو سو طرح کے دکھ تھے ہمیں
تمہارے بعد بھی آئیں قیامتیں کیا کیا
وہ شخص پارہ صفت ہے تو کیا کہے کوئی
وہ لمحہ لمحہ بدلتا ہے حالتیں کیا کیا
خیال، خواب، خموشی، فراق، تنہائی
وفا نے بخشی ہیں مجھ کو بھی نعمتیں کیا کیا
صفیؔ یہ درد کے سکے یہ اشک کے موتی
وہ بھیجتا ہے محبت کی اُجرتیں کیا کیا
٭٭٭