کاوشِ انساں کا کیا، کی اور اکارت ہو گئی
امتدادِ وقت سے دھُندلی، عبارت ہو گئی
چلتی گاڑی سے جو ٹکرا کر گری وہ فاختہ
تھی تلاشِ رزق میں نکلی کہ غارت ہو گئی
زیر بار اُس کے ہوئے ایسے، نہ رُخ موڑا گیا
ہوتے ہوتے درد سے ایسی سفارت ہو گئی
رہبری کا اہل ٹھہرا ہے وہی اپنے یہاں
رہزنی کے باب میں جس کو مہارت ہو گئی
لمس اُس پارس کا سپنوں تک کو کندن کر گیا
اُس کے دم سے اپنی غربت بھی امارت ہو گئی
٭٭٭