پیڑ لگاتا رہتا ہوں
پھر بھی دھوپ میں بیٹھا رہتا ہوں
دریاؤں سے ڈرتا ہوں
میں بھی کیسا پیاسا ہوں
خود کو سچا کہتا ہوں
میں بھی کتنا جھوٹا ہوں
تیری یاد میں ڈوب کے میں
اب خود کو خط لکھتا ہوں
تیرے وصل کے موسم کا
ایک اک لمحہ گنتا ہوں
اپنے دل کی بات کو اب
دیواروں سے کہتا ہوں
ساتھ رہا ہے تو لیکن
اکثر تنہا جاگا ہوں
اتنے صدمے سہہ کر بھی
جانے کیسے زندہ ہوں
اجلے اجلے شہروں میں
روشنیوں کو ترسا ہوں
نیندوں کی دہلیزوں سے
جھوٹے سپنے چنتا ہوں
خاموشی آزار نہ بن !
میں اب بولنے والا ہوں
چاہت کی بینائی سے
تیرا چہرہ پڑھتا ہوں
مجھ میں ڈوبنے والے،میں
دریا سے بھی گہرا ہوں !
خود کو پھول سا کہتا ہے
جیسے میں نابینا ہوں
شاخوں تک محدود نہیں
باتوں میں بھی مہکا ہوں
جس کا باسی کوئی نہیں
میں اس دیس کا نقشہ ہوں
میرا گھر کیا ٹوٹ گیا
ایک اک گھر کو تکتا ہوں
Bookmarks